کافی دیر تک ک وہ سب طلباء پروجیکٹ میں مصروف رہے۔ دراصل یہ پروجیکٹ ایک غیر نصابی سرگرمی کے تحت تھا۔اور انکے کورس سے بلکل ہٹ کر تھا ۔تاکہ طلباء میں صلاحیت چیک کی جائے کہ آیا وہ اپنے نصاب سے ہٹ کر کسی اور سرگرمی کو بھی بخوبی نبھا سکتے ہیں یا نہیں۔
سبکی کوشش تھی کہ وہ ہی اس پروجیکٹ میں نمایاں رہیں۔دوسری طرف حور بھی اب کافی حد تک کمفرٹیبل ہو گئی تھی۔اور اس میں زیادہ ہاتھ عالیان کا ہی تھا۔اب وہ اپنی رائے بھی دیتی تھی۔عالیان کچھ پوچھتا تو حور اسکو مفید مشورے بھی دیتی تھی۔عالیان حور کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا تھا۔وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ حور کافی پر اعتماد ہے۔بس وہ لڑکوں سے گھبرا۔ جاتی ہے اسے حور کی یہ بات اچھی لگی تھی کہ وہ اور کچھ لڑکیوں کی طرف لڑکوں کے پیچھے نہیں بھاگتی کیونکہ اسے اپنی اور اپنے والدین کی عزت کا خیال تھا۔
اسی وجہ سے عالیان کے دل میں ایک احترام سا حور کے لیے پیدا ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔جب کہ سب لڑکیاں ان سے پہلے ہی آگئ تھیں۔اور ان سب کی انٹری اب ہوئی تھی ۔
عالیان،روحیل ایان اور جبرائیل چاروں نے بیگ ایک طرف صوفے پر رکھے اور ساتھ موجود صوفے پر گرنے کی انداز میں بیٹھ گے۔
"اف یار ...... چائے کہ طلب ہو رہی ہے بہت زیادہ۔ روحیل کے کہنے پر عالیان نے بھی سر ہلایا جب کہ جبرائیل اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ اور ایان آتے ہی ایسے پڑا تھا صوفے پر جیسے کوہ ہمالیہ سر کر کے آیا ہو۔
وہ سب جانتے تھے کہ گھر کے بڑے اس وقت آرام کر رہے ہوں گے اور ملازم بھی اپنے کوارٹر میں ہوں گے۔اور اب شام کو ہی آئیں گے کہ یہ اصول بھی دادا جان کا تھا۔ تاکہ ملازمین بھی کچھ وقت آرام کر لیں۔
"یار اب کیا کریں کس سے بولیں چائے کے لیے ۔"روحیل نے افسردگی سے عالیان کی طرف دیکھ کر کہا کیوں کہ ایان کو دیکھنا نہ دیکھنا برابر تھا اس نے کون سا کوئی مشورہ دینا تھا۔
عالیان نے صوفے پر لیٹے ہوئے ایک بازو سر کے نیچے اور دوسرا آنکھوں پر رکھا ہوا تھا اور ٹانگیں نیچے لٹک رہیں تھیں۔
ایک دم ہی روحیل کی آنکھیں چمکیں ۔
"یار برو ہماری پیاری سی بہنیں کب کام آئیں گی۔
روحیل نے عالیان کو بازو سے ہلاتے ہوئے کہا۔
جس پر عالیان سمجھ گیا۔
"نہ روحیل یار مجھ سے کوئی امید مت رکھنا مجھے دادا کی ڈانٹ نہیں کھانی۔"عالیان روحیل کی بات اور اس طرح اسکا بازو پکڑ کر اسکی طرف دیکھنے کا مطلب سمجھ گیا تھا۔
اور دادا کے اصولوں کے مطابق کسی بھی لڑکے کا لڑکیوں کے کمرے میں جانا ممنوع تھا ۔
"ارے یار تجھے کون سا ہم نے انکے کمرے میں جانے کا بولا ہے جو اتنا نکھڑے دکھا رہا ہے "
تجھے بس سر درد کا ڈرامہ کرنا ہے"
۔اور روحیل کی بات پر ایان جو کب سے کن اکھیوں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اس نے بھی عالیان کو دیکھ کر آنکھ دبا کر سر ہلایا ۔
ا
عالیان نے ان دونوں کو گھوری سے نوازا۔
"اچھا جی میں کیوں بلی کا بکڑا بنوں اور تم لوگ مزے سے چائے کی چسکیاں لو"
عالیان نے صوفے سے اٹھتے ہوئے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
کیوں کہ اسے یاد تھا پچھلی دفعہ بھی سب نے اسے ہی آگے کر دیا تھا جب دادا نے پوچھا کہ کس نے چائے کا کہا تو سب نے عالیان کا نام لے لیا کہ وہ دادا کا لاڈلا ہے تو اسے کچھ نہیں کہیں گے۔
"نا بابا نہ مجھ سے کوئی امید مت رکھنا عالیان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا اور دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا ۔
اتنے میں انکو اوپر سے علشبا آتی نظر آئی جس پر روحیل نے عالیان کو مسکین نظروں سے دیکھا ۔علشبا اسکی اپنی بہن تھی مگر وہ جانتا تھا کہ وہ سب سے زیادہ عالیان کی بات مانتی تھی ۔
عالیان نے پہلے سیڑھیاں اترتی علشبا کو دیکھا اور پھر روحیل اور ایان کو جو رونے والے ہو چکے تھے۔
اور قریب تھا کہ انھوں نے فرش پر بیٹھ کر دھاڑیں مار کا رونا شروع کر دینا تھا۔ کیونکہ چاہیے میں تو انکو جان دل گردہ سب بستا تھا۔
عالیان نے انکو گھوری سے نوازا اور (تم لوگوں کو تو میں بعد میں سیٹ کرتا ہوں )والے تاثر دیے۔
مگر مقابل بھی ڈھیٹ مہا ڈھیٹ تھے۔ان پہ اثر ہونا ناممکن.....
"افف یار آج تو سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔
علشبہ جیسے ہی آخری سیڑھی پر پہنچی ۔
عالیان نے چارو ناچار ایکٹنگ شروع کر دی اور اپنا سر ایان کی گود میں رکھ لیا جس پر وہ اسکے سر کو مصنوعی سا دبانے لگا کیونکہ وہ لوگ علشبہ کی توجہ اپنی طرف کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
"کیا ہوا عالیان بھائی"علشبہ پرشان سی چل کر ان لوگوں کے پاس آگئی۔
عالیان کا دل کیا فوراً اٹھ جائے اور سب کچھ اسکو بتا دے مگر ایان نے اسکا سر ایسے پکڑ رکھا تھا جیسے عالیان کا سر بھاگ جائے گا اگر زرا بھی ڈھیلا چھوڑا تو۔
"یار بہنا عالی کے سر میں آج بہت درد تھا یونی میں بھی یہ بے چارہ سر ہی پکڑے رہا ۔وہ تو اچھا ہوا پروفیسر کو ترس آگیا اور اسکو کلاس سے باہر بھیج دیا ۔" علشبہ کے پوچھنے پر ایان نے دکھی لہجے میں اسے جھوٹ گھڑ کر سنایا جس پر عالیان بے ہوش ہوتے ہوتے پچا جب کے دوسرے صوفے پر بیٹھے روحیل نے ایان کی ایکٹنگ پر بمشکل اپنی ہنسی دبائی اور کانوں کو ہاتھ لگایا ۔
"اوہ بھائی آپ دھیان رکھا کریں نہ رات کو بھی آپ دیر رات تک پڑھتے رہتے ہیں سر درد تو ہوگا نہ"
ایان کی بات پر علشبہ نے افسوس سے عالی کو دیکھ کر کہا ۔
عالی نے بمشکل ضبط کیا ۔اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اپنی بہنوں جیسی کزن کو جھوٹ بولنا ۔
"کچھ نہیں ہوا گڑیا بس ہلکا سا درد ہے چائے پیتے ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ میرے لیے ایک کب چائے بنا دو گی۔؟"
عالی نے مسکین صورت بنا کر کہا جس پر علشبہ نے سر ہلایا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔
"اوے تو نے ایک کپ بولااب وہ سچ میں ایک کپ ہی بنا لائے گی۔ عالی کچھ کر ہماری بھی سفارش کر دے یار ۔"
اب کے روحیل نے عالی کے کان میں سرگوشی کی۔
عالی نے اسکی بات پر سنجیدگی سے سر ہلایا اور علشبہ کو آواز دی۔
"علشبہ ؟
اسکی آواز پر علشبہ نے کچن سے باہر جھانکا
"گڑیا کس کس کے لیے بنا رہی ہو چائے"؟
عالیان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"بھائی آپ کے لیے بنانے لگی تھی تو سوچا روحیل بھائ اور ایان بھائی کے لیے بھی بنا دوں "
علشبہ کے کہنے پر روحیل اور ایان نے فرضی کالر جھاڑا ۔
"ارے نہیں گڑیا انھوں نے نہیں پینی چاہے صرف میں ہی پیوں گا۔ اب بلا وجہ رزق کیوں ضائع کرنا "بس ایک ہی کپ بناؤ جاو شاباش...
عالی کی بات پر وہ دونوں صدمے کی سی حالت میں اسکو دیکھنے لگے. جس نے انکو دیکھ کر آنکھ دبائی اور سکون سے صوفے پر لیٹ گیا۔
"نہیں نہیں گڑیا اب تم نے چائے رکھ ہی دی ہے تو پی لیں گے ،اب کیا رزق ضائع کرنا کیوں عالیان"
اب کی بار ایان نے علشبہ سے کہا۔ اور عالی کو آخر میں آنکھیں دکھائیں۔ جس پر اسے نے ہنسی دباتے علشبہ کو دیکھ کر سر ہلا دیا جو کب سے کنفیوز سی کھڑی تھی۔۔
علشبہ کو جاتے دیکھ کر دونوں عالیان کی طرف آئیے اور روحیل نے مکہ اسکے پیٹ میں مارا۔جب کہ ایان بھی خونخوار نظروں سے اسے ہی گھور رہا تھا۔ روحیل کے مکہ مارنے سے عالیان کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی جس پر علشبہ دوڑتی ہوئی باہر آئی۔
"کیا ہوا بھائی آپ ٹھیک تو ہیں"
علشبہ کے پوچھنے پر عالیان جو کے سب بتانے لگا تھا جیسے ہی منہ کھولا ایان نے اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔ چونکہ اسکے ساتھ ہی روحیل بھی بیٹھا تھا جس کی وجہ سے علشبہ کو عالی کے منہ پر رکھا ایان کا ہاتھ نظر نہ آیا ۔
"ارے کچھ نہیں گڑیا بس میں نے زیادہ زور سے دبا دیا (پیٹ) سر جس کی وجہ سے بیچارہ چیخ پڑا کتنا نازک دل ہے میرے بھائی کا ہاں "
روحیل نے ایکٹنگ کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
جس پر علشبہ سر ہلاتے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد ریحان بھی آ چکا تھا وہ پڑھائی کے بعد سب اپنے بابا کے ساتھ آفس جاتا تھا ۔اور ابھی ہی آفس سے واپس آیا تھا جب کہ باقی سب نے لیٹ آنا تھا ۔
ایان اسکے لیے بھی علشبہ کو چائے کا بول آیا تھا ۔
وہ سب اب باتوں میں مصروف تھے ۔کچھ دیر پہلے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔ایسے ہی تھے سب۔ ایک دوسرے میں جان بستی تھی انکی ۔
جبرائیل جو آتے ہی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلا گیا تھا وہ بھی نیچے آیا اور سیدھا کچن میں پانی کی غرض سے چلا گیا ۔
باقی سب بھی باتوں میں مصروف تھے تو کسی کا اسکی طرف دھیان نہیں گیا۔ باقی سبکے برعکس جبرائیل اور ریحان سنجیدہ مزاج تھے ۔
علشبہ سب کے لیے کچن میں چائے بنا رہی تھی جب جبرائیل کچن میں داخل ہوا۔علشبہ کو دیکھ کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔
"علشبہ سنو ایک کپ چائے مجھے بھی مل سکتی ہے "
جبرائیل کی آواز پر علشبہ جو چائے میں دودھ ڈال رہی تھی اسکی طرف پلٹی
"جی بھائی ضرور میں سب......
"ایک منٹ تمہارے سب بھائی وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں،ادھر کوئی بھائی نہیں ہے تمہارا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
جبرائیل نے اسکے منہ سے بھائی سنا تو ضبط کرتے ہوئے بولا۔
اسکی بات پر علشبہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
جب کے جبرائیل اسکی نظروں کو اگنور کرتا فریج کی طرف بڑھا پانی کی بوتل نکالی اور گلاس میں اپنے لیے پانی ڈالا اور پینے لگا۔
"لیجیے بھائی چائے تیار ہے۔"
"عالی.... روحیل.... ریحان بھائی"....
جبرائیل زور زور سے سبکو بلانے لگا
علشبہ بیچاری ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی
سب اسکی آواز سن کر آگئے۔
"کیا ہؤا جبرائیل؟"
ریحان نے پرشانی سے پوچھا
"بھائی .....
آپ سبکی بہن کو سب بھائیوں کی بہت یاد آرہی تھی۔ اس لیےمیں سوچا سب کو ادھر ہی بلالوں۔"
جبرائیل نے علشبہ کو کھا جانے والے تیور کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہنہ جبرائیل بھائی۔"
جبرائیل منہ میں ںبڑبڑایا جو کے سب نے سن لیا سوائے علشبہ کے جسے اب تک سمجھ ہی آئی تھی کہ ہوا کیا ہے۔
اب سب وہاں کھڑے مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کر رہے تھے۔
جبرائیل نے اپنا چائے کا کچھ اٹھایا اور جانے لگا
"میرا نام جبرائیل ہے بھائی نہیں"
علشبہ کو یہ کہ کر وہ تیزی سے نکل گیا جب کہ باقی سب کا زوردارقہقہہ اسکا کمرے تک پیچھا کرتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک اونچی سی عمارت کے ایک آفس کا منظر تھا ۔بلاشبہ یہ آفس کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا
آفس کچھ ایسا تھا کہ سربراہی کرسی کے پیچھے زرا فاصلے پر ایک کپبورڈ تھی جو کہ خوبصورت لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔جس کا رنگ براؤن تھا۔اس پر دو شیلف میں مختلف نوعیت کی کتابیں موجود تھیں۔
غالباً اس آفس کا مالک کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا۔
اس کے علاوہ دوسری شیلف ہر کچھ شو پیس رکھے گئے تھے۔اور ساتھ ایک L .e.d بھی نصب کی گئی تھی۔
آفس کافی بڑا تھا سربراہی کرسی کے دوسری جانب بھی کچھ کرسیاں موجود تھیں۔ اور درمیان میں موجود ٹیبل پر لیپ ٹاپ کچھ فائلز سیل فون ،گاڑی کی چابیاں اور چند دوسری چیزوں کے علاؤہ تین عدد کافی کے کپ بھی موجود تھے ۔جن سے نکلنے والے دھویں کے مرگولے بتا رہے تھے کہ یہ ابھی ابھی فریش کافی یہاں موجود نفوس کے لیے لائی گئی ہے۔
سامنے کلاس ونڈوز تھیں جن سے باہر کا سارا منظر نظر آتا تھا ۔ان کلاس ونڈوز پر دبیز قیمتی گرے کلر کے کرٹنز تھے۔
سربراہی کرسی پر ایک درمیانی عمر کا مرد بیٹھا تھا جس کے قیمتی لباس اور قیمتی گھڑی اسکی اعلی شخصیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر سونے کی انگھوٹی چمک رہی تھی۔
اسکے سامنے موجود کرسیوں پر دو اسی عمر کے مرد براجمان تھے۔جنہوں نے بلیک اور نیلے تھری پیس پہنے تھے۔اور آنکھوں پر اسٹائلش شیڈز لگائے تھے ۔
ان میں سے ایک کے ہاتھ میں سگار تھا جس کے وہ سامنے موجود شخص سے بات کرنے کے دوران وقفے وقفے سے کش لے رہا تھا۔ جب کہ دوسرا شخص اپنے ہاتھ میں موجود قیمتی اسمارٹ فون پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا ۔گایے بگاہے نظر اٹھا کر ان دونوں کو بھی دیکھ لیتا۔
"David"?
اچانک سربراہی کرسی پر موجود اس شخص نے ان میں سے ایک کو مخاطب کیا جو کہ شکل سے ہی غیر ملکی لگتا تھا ۔
وہ شخص جو فون پر مصروف تھا ۔فون اس نے ٹیبل پر رکھ دیا۔اور اپنے مقابل کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ اور آ برو آچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"The work I gave you has not yet been done"
مقابل نے کچھ سرد مہری سے کہا جس پر David نے مسکرا کر سر جھٹکا پھر تھوڑا آگے کو ہوا اور اپنے بازوؤں کی کہنیاں میز پر ٹکا لیں۔
جب کہ اسکے ساتھ بیٹھا شخص سکون سے انکی گفتگو سن رہا تھا اور ساتھ کافی کی چسکیاں بھی لے رہا تھا۔
"Relax diamondback relax"
ڈیوڈ نے اس شخص جس کو سب diamond back کے نام سے جانتے تھے ۔اسے پر سکوں رہنے کے لیے کہا اور کافی کی طرف اشارہ کیا۔
"Such risky tasks take time. Everything has to be done thoughtfully and planned"
ڈیوڈ نے سکون سے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
جس پر diamond back نے محض سر ہلایا۔
(مغربی ڈائمنڈ بیک ریٹلسنیک (کروٹلس ایٹروکس) ایک بھاری جسم والا سانپ ہے جس کا سہ رخی سر ہے۔ اس کے چہرے کے ہر طرف دو تاریک اخترن لائنیں ہیں جو آنکھوں سے اس کے جبڑوں تک چل رہی ہیں۔ اس میں ہیرے کے سائز کا گہرا نمونہ واپس آیا ہے۔ دم میں دھندلیوں کے بالکل اوپر بلیک اینڈ وائٹ بینڈ ہیں۔)
اس مرد کے جسم پر diamond back کے بے شمار ٹیٹو تھے جس کی وجہ سے اسکا نام بھی یہی مشہور ہو گیا جب کہ اسکا اصلی نام راؤ سکندر تھا جو کے بہت ہی کم لوگ جانتے تھے۔ وہ انڈر ورلڈ کا بہت ہی چلاک اور خطرناک اسمگلر تھا،جو کے بزنس کے نام پر اپنا دھندا چلا رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبرائیل اپنے کمرے میں تھا۔
جبرائیل بھائی آپکی چائے...
علشبہ کی بات پھر سے اسکے دماغ میں گھوم رہی تھی۔جس پر اسے ایک دفعہ پھر غصہ آگیا
وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے لگا ۔
تھوڑی دیر ہی گزری کہ دروازے پر کسی نے نوک کیا۔
جبرائیل نے دروازے کو دیکھا
"کم ان"
اسکے کہتے ہی ایان کمرے میں آیا۔
اب ایان کمرے میں تو آگیا مگر بولا کچھ نہیں۔ جس پر جبرائیل نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"وہ بھائی ہم سب نے مووی دیکھنے کا پلان بنایا ہے۔
اسکی بات پر جبرائیل نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔جس پر ایان گھبرا گیا۔
"بھائی پلیز...
کیا پلیز"
جبرائیل تھوڑا غصے سے بولا۔
ایسے مت دیکھیں۔بچے کو شامو آرہی ہے ۔
ایان نے کہتے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔
"مار کھاؤ گے ایان "
جبرائیل نے اسے جڑکا۔
"اب سیدھی طرح بتاؤ کہ کیوں آئے ہو؟
دادا جان کے ہوتے ہوئے تم لوگ مووی دیکھو گے امپوسیبل..."
جبرائیل نے کہا اور پھر سر ت پیر تک اسکا جائزہ لیا۔
بھائی آپکے کمرہ کتنا پیارا ہے نہ۔ایان نے اسکے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
"بھائی اب ایسے کیا میرا ایکسرے کر رہے ہیں۔
جان تو آپ گئے ہیں کہ ہم لوگ چھپ کر فلم دیکھنے لگے ہیں۔ پچھلی دفعہ ہم نے عالیان کے کمرے میں فلم دیکھی تھی۔اور آپ تو جانتے ہیں اسے دادا کا فرمانبردارررررر...ایان نے آخری لفظ پر زور دیتے کہا ۔
"اس دفعہ تووہ بھی نہیں مان رہا۔خون سفید ہو گیا ہے غدار کا۔"
ایان نے اسے بتایا جیسے عالی نے کسی کو پھانسی پر چھڑہانے کا حکم جاری کر دیا ہو ۔
"اس دفع پلیز آپکے کمرے میں ہم مووی دیکھیں گے"۔
ایان کے سچ بات کہنے پر جبرائیل نے اسے گھوری سے نوازا۔
"بھائی پہلیز مان جائیں نہ یار"
آپ کتنے سمجھ دار ہیں۔اگر دادا جان آ بھی گئے تو آپ ہمیشہ کی طرح کوئی نہ کوئی بہانہ بنا ہی لیں گے مجھے پتہ یے۔
"ایان نے سینہ چوڑا کر کے کہا۔
"یہ پہلی اور آخری دفعہ ہے ایان اوکے..."
جبرائیل نے اسکے بچوں کی طرح اسرار کرنے پر حامی بھر لی اور ساتھ ہی انگلی اٹھاتے ہوئے اسے وارننگ دینا بھی نہ بولا ۔
"ہاے میرے پیارے بھائی...
جبرائیل کے راضی ہونے پر ایان نے اسے ایک دم گلے لگا لیا۔
مجھے فخر ہے آپ پر بھائی"
ایان اس گھر کا سب سے شرارتی پیس تھا ۔اور اب بھی اسکی شوخیاں عروج پر تھیں۔
"اچھا اچھا اب زیادہ مکھن نہ لگاؤ ۔میرا موڈ آج ویسے ہی خراب ہے۔
"کیوں بھائی کیا ہوا۔"ایان نے اسکی طرف دیکھتے ایسے پوچھا جیسے کوئی بڑا اپنے سے چھوٹے سے پوچھتا ہے۔
"جبرائیل نے پہلے اسے گھورا پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"یار تم لوگوں کی بہن میرا ضبط آزما رہی ہے۔
جبرائیل نے حفگی سے اسے دیکھتے کہا۔
ایان نے ڈانگ پر ڈانگ چڑھائی صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا پھر بولا۔
"کیسے"؟
جبرائیل کا دل کیا اسکو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دے
اٹھ"
جی"
ایان نا سمجھی سے بولا۔
میں نے کہا اٹھ سالے ادھر میں سوکھ سوکھ کر آدھا ہو گیا ہوں اور تجھے مزاح کی پڑی ہے ۔
اٹھ "
جبرائیل نے غصے سے کہا اور اسے بازو سے پکڑ کر کمرے کے دروازے تک لایا
"اوہ بھائی کیا کر رہے ہیں۔
بچے کو درد ہو رہا ہے۔
"جبرائیل نے اسکی بات ان سنی کی اور جھٹکے سے دروازہ کھولا ۔
بس دروازہ کھولنے کی دیر تھی۔
باہر کھڑا عجوبوں کا پورا ٹولا دھڑام سے کمرے کے اندر موجود ایان پر گرا۔
"آہ ہ امی....مڑ گے...
ایان کی۔ چیخں بلند ہوئیں۔جو کہ چیخیں کم اور اور اوور ایکٹنگ زیادہ تھی۔
جبرائیل بھی اس اچانک افراد پر بوکھلا گیا۔
"عالیان روحیل اور ریحان تینوں نے خود کو سنبھالا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
اب جبرائیل سینے پر ہاتھ باندھے ان لوگوں کو گھور رہا تھا۔
جب کہ ایان اشاروں اشاروں میں انکی بہت عزت کے ساتھ بے عزتی کر رہا تھا۔
"روحیل اور ریحان عالی نظریں جھکائے کھڑے تھے۔
وہ پکڑے گئے تھے۔
"اب کوئی مجھے بتائے گا کہ یہ سب کیا تھا"
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جبرائیل سرد لہجے میں بولا نظریں ابھی بھی ان پر ہی تھیں۔
"میں بتاتا ہوں بھائی۔"
ایان نے سمجھداری سے آگے بڑھتے ہوئے کہا
جس پر عالی لوگوں نے اسے گھوری دی۔
"نہ بیٹا نہ میری جو ڑیڑھ کی ہڈی تم لوگوں نے توڑی ہے نہ اسکا بدلہ تو میں ضرور لوں گا۔"
ایان نے دل ہی دل میں سوچا اور انکو اگنور کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔
"بھائی دراصل جب علشبہ نے آپکو جبرائیل بھائی کہا تو یہ سب بہت ہنسے اتنے کے عالی تو بے ہوش ہی ہونے لگا تھا ۔ایان کی بات پر عالی نے صدمے سے اسے دیکھا جو بڑے مزے سے کچھ سچ اور بہت زیادہ جھوٹ گھڑ کر سنا رہا تھا۔ عالی کے دیکھنے پر اسنے آنکھ دبائی۔
"بھائی اب سب کا پلان تھا کہ آپکو تھوڑا تنگ کیا جائے۔یہ سب لوگ باہر کھڑے ہوئے۔ اور مجھ معصوم کو اندر بیجھا کہ میں مووی کی بات کرنے کے بعد علشبہ کی طرح
جبرائیل بھائی جبرائیل بھائی کہ کر آپکو تنگ کروں اور فوراً باہر کو بھاگوں اور ساتھ یہ لوگ بھی ایسے ہی کرتے آپکو تنگ کریں
ایان نے لمبی سانس لی ۔
"لیکن بھائی میں ان جیسا کم ظرف نہیں ہو ں کہ اپنے جبرائیل بھائی ی ی ی....کو تنگ کروں
ایان نے بھائی پر زور دیا جس پر روحیل کی ہنسی چھوٹ گئی۔
گویا ایان نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے
جو کہ غصے سے سرخ ہوتے جبرائیل کی بھی سمجھ میں نہیں آیے تھے۔
"مجرم آپکے سامنے ہیں بھائی۔"
ایان نے جبرائیل کا رخ عالی لوگوں کی طرف موڑا ابھی جبرائیل پوری طرح انکی طرف رخ موڑ بھی نہیں پایا تھا کہ کہ سب بوتل کے جن کی طرح غائب ہوئے۔
"یہ لیجیے جبرائیل بھائی آپکی چائے ےےے....
وہ سب اب باہر کھڑے اسے علشبہ کے ہی انداز میں بولتے ہوئے چڑھانے لگے۔ سبکا جاندار قہقہہ بلند ہوا ۔
جبرائیل غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے انھیں گھورتا ہوا باہر نکلا مگر وہ تینوں سیڑھیاں چھلانگتے نیچے بھاگ گے۔ ایان نے بھی منہ بنایا ۔
جب کے جبرائیل نے غصے سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر دیوار پر ماری ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حور بیٹا کھانا کھا لو میری جان "
کب سے آئی ہو اور بس یہاں بھی یہ یونی کا کام لے کر بیٹھ گئی ہو۔
حور کی امی نے اسکے کمرے میں آتے ہوئے اسے کہا۔
"بس ماما ہوگیا ۔
آپ چلیں میں آتی ہوں ۔ "
اسکی ماما نے سر ہلایا اور روم سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔
"
"بیٹا آپکی اسٹڈی کیسی۔ چل رہی ہیں۔
حور کے بابا حیات صاحب نے اسکی طرف دیکھتے پوچھا۔
گریٹ بابا ۔
بہت اچھی تیاری ہے میری اگزامز کی۔
حور گرم جوشی سے بولی ساتھ ہی پلیٹ میں موجود چاول دوبارہ کھانے لگی ۔
اچھا بیٹا مجھے اور آپکی ماما کو آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔حیات صاحب نے پہلے اپنی بیگم کو دیکھا جس پر انکی بیگم نے سر ہلایا پھر وہ حور کی طرف متوجہ ہوئے۔
حور نے پلیٹ میں چلتا ہاتھ روک کر اپنے بابا کو اور پھر اپنی ماما کو دیکھا ۔
"جی ماما بابا بولیں میں سن رہی ہوں۔"
حور نے گلاس میں پانی ڈالا اور باقاعدہ طور پر ان کی طرف متوجہ ہو گی۔
"پہلے آپ کھانا تو کھا لیں بیٹا "
حور کے والد صاحب نے کہا۔
"نہیں نہیں بابا میں کھانا کھا چکی ہوں بس آپ بولیے کیا ضروری بات کرنی تھی آپ کو مجھ سے۔؟"
اسکی بات پر حیات صاحب زرا آگے کو جھکے۔
بیٹا کل جب آپ یونی میں تھی تب رضا اور۔بھابھی آئیں تھی۔
انھوں نے اپنی بیگم کو دیکھتے کہا جس پر حور کی ماما نے سر کو خم دیتے انھیں بات جاری رکھنے کو کہا۔
"جی بابا پھر ",
حور سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگی۔
"بیٹا یہ بات آپسے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ آپکا اور امان کا رشتہ ہم نے بچپن سے ہی طے کر دیا تھا۔
پھر جب آپ لوگ جوان ہوئے تو آپ دونوں کی بھی رضامندی لےلی تھی ۔
حور نے سر ہلایا ۔وہ بہت توجہ سے انکی بات سن رہی تھی۔
"بیٹا اب رضا چاہتا ہے کہ آپکے اگزامز کے ٹھیک ایک ہفتے بعد آپکا اور امان کا نکاح کر دیا جائے۔
وہ بولتے ہوئے حور کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھتے تھے۔
حور جو آرام سے انکی بات سن رہی تھی۔ایک دم چونک کر پہلے اپنے بابا اور پھر ماما کو دیکھا۔
بابا مگر ...
بیٹا ابھی صرف نکاح ہوگا ۔رخصتی میں تو کافی ٹائم ہے۔ویسے بھی امان بھی یہاں زیادہ نہیں آتا تمہارے حجاب کی وجہ سے ۔
اسکی ماما نے اسے سمجھایا۔
حور چپ رہی اور ٹیبل پر انگلیاں پھیرنے لگی۔
حور بیٹا اگر آپ ابھی نہیں تیار تو کوئی مسلئہ نہیں۔میں نے رضا سے کہ دیا تھا کہ جو حور اور امان چاہیں گے وہی ہوگا۔
اسکے بابا نے اسے کنفیوز دیکھا تو نرمی سے بولے۔
"امان کی کیا مرضی ہے "
کچھ دیر بعد حور آہستگی سے بولی
"امان بیٹے نے کہا کہ اگر حور کو کوئی پرابلم نہیں تو مجھے کیا احتراز ہوگا ۔
مگر حور سے اسکی مرضی ضرور پوچھ لیں۔
"انکی بات پر حور کو تھوڑا اطمینان ہوا۔
"ٹھیک ہے بابا مجھے کوئی مسلئہ نہیں جیسے آپ سبکو ٹھیک لگے ۔"
حور کی بات پر حیات صاحب اور انکی بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
"جیتی رہو میری بچی"
اسکی ماما نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے سر پر بوسہ دیا۔
"میں زرا یہ خوشخبری رضا کو سنا کر آتا ہوں ۔حور کے بابا بھی مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھے حور کی طرف آئے اسکے سر پر ہاتھ رکھا جس پر حور مسکرا دی۔
پھر وہ فون کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اپنے ڈورم میں بیٹھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھی۔
ہمیشہ کی طرح حفضہ ناول پڑھ رہی تھی اور نایاب اپنے نوٹس لکھ رہی تھی۔
"یار وہ لڑکا تھا کون اردو بھی کسیے فر فر بول رہا تھا۔"
نایاب نے دونوں بازو گھٹنو کے گرد لگاتے حفضہ کی طرف دیکھتے پرسوچ انداز میں کہا
میرا بچپن کا دوست تھا"
حفضہ نے ناول سے نظر اٹھا کر اسے گھورتے ہوئے کہا۔
اوہ سچ چ..... پہلے بتاتی نہ میں اس سے تمہاری بچپن کی تصویریں مانگتی ۔
نایاب نے اسکے مزاح کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے شرارتی مسکراہٹ سے کہا
"جس پر حفضہ نے اسے گھوری سے نوازا اور دوبارہ سے ناول پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔
"کون سا ناول پڑھ رہی ہو"
نایاب نے سر تھوڑا اونچا کر کے اسکے ناول پر جھانکنے کی کوشش کی ۔
"امر بیل"
حفضہ افسردگی سے گویا ہوئی۔
"تو اس میں اتنا پرشان ہونے والی کون سی بات ہے۔
"نایاب نے منہ بناتے کہا۔
یار تم نہیں سمجھو گی
اس ناول میں نہ عمر جہانگیر مر جائے گا۔
یہ کہتے ہی ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکے رخسار پر بہ گیا۔
"افففف....ڈونٹ ٹیل می حفضہ کہ عمر بھی تمہارا کرش ہے"
نایاب نے اسے انگلی دکھاتے کہا
"سو تو ہے"
حفضہ نے ایک ادا سے جواب دیا اور دوبارہ ناول میں گھس گئئ۔
خفضی ......
نایاب بے بسی سے چیخی۔
"وہ تنگ آگئ تھی اسکے روز روز کے بدلتے کرش سے۔
"ارے نایاب لغاری آہستہ بولو
تمہاری اس خوفناک چیخ سے عمر اور علیزے بھی ڈر گئے۔
وہ افسوس سے ناول کی طرف اشارہ کرتے بولی۔
جس پر نایاب نے کشن زور سے اسکی طرف پھینکا ۔
جب کہ حفضہ نے شرارتی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی۔ وہ حفضہ ابراہیم خان تھی عالیان کی بہن۔ہار منانا تو اسے آتا ہی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے.....