قسط نمبر اٹھائیس

1.9K 105 104
                                    

اپنے آس پاس اسے کچھ دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دی تھی جس کی وجہ سے اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ پوری طرح ہوش میں نہیں آ پا رہی تھی-

بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے...

اللہ رحم کرے...

لگتا ہے نیا شادی شدہ جوڑا ہے...

لڑکا شدید زخمی ہوا ہے...

لڑکی کے کم چوٹیں ہیں...

اس کی سانسیں ابھی چل رہی ہیں...

اس کا بچ پانا مشکل ہے...

ارے کوئی ایمبولینس کو منگوا لو... شاید اس کی زندگی بچ جائے...

آس پاس کے رہنے والے گاڑیوں کی زوردار ٹکر کی آواز سن کر ان کی گاڑی کے قریب آئے تھے -

ایسی کئی طرح کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائی تھیں جسے سن کر وہ ہوش میں آئی تھی اور سمیر کو دیکھا تھا... اسے خون سے لت پت دیکھ کر اس کی چیخ نکلی تھی... دانین کا وجود سرد پڑنے لگا تھا... آنکھوں میں آنسو آئے تھے اور وہ سمیر کا بازو پکڑ کر ہلانے لگی تھی -

سمیر... سمیر کیا ہوا ہے...پلیز آنکھیں کھولیں... پلیز... وہ اس کا بازو ہلاتے ہوئے بولی-

تب ہی ایمبولینس کی آواز آئی تھی اور پھر سب نے مدد کرکے سمیر کو باہر نکال کر ایمبولینس میں لٹایا تھا اور پھر دانین کے بیٹھتے ہی ایمبولینس ہاسپٹل کی طرف روانہ ہو گئی -

***

جیسے ہی ان کے گھر والوں کو اس بات کی خبر ملی تو سب ہاسپٹل پہنچ گئے تھے...دانین نے ہی ان لوگوں کو یہ جان لیوا خبر دی تھی...اسے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی...دل بیٹھا جا رہا تھا اس نے حدید کو بھی کال کر کے اسے حادثے کے بارے میں بتایا تھا تو وہ اسی وقت ہاسپٹل کے لیے نکل پڑا تھا -

ہاسپٹل میں سمیر کو ٹریٹ منٹ کے لئے ایمرجینسی میں لے جایا گیا تھا اور کچھ چوٹیں دانین کے بھی آئی تھی جس کی ڈریسنگ کر دی گئی تھی... اب وہ بیٹھی سمیر کے لیے دعا کر رہی تھی... ہاسپٹل میں عجیب طرح کی ہلچل مچی ہوئی تھی اور اس ماحول سے اسے وحشت ہونے لگی تھی... وہ تو پہلے ہی ہاسپٹل اور ڈاکٹر کا نام سنتے ہی ڈر جاتی تھی جبکہ اس وقت وہ ہاسپٹل میں موجود تھی... اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.... لبوں پر ایک ہی دعا تھی کہ سمیر کو کچھ نہ ہو... وہ ٹھیک ہو جائے-

***

مسٹر اینڈ مسسز ملک اپنے لاڈلے بیٹے کی زندگی کے دعا کر رہے تھے...تب ہی ڈاکٹر ایمرجنسی سے باہر نکلے تھے تو مسٹر ملک ان کی طرف بڑھے تھے -

ڈاکٹر... میرا بیٹا کیسا ہے...انہوں نے بے تابی سے پوچھا-

دیکھیں ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے...مریض کی حالت تشویشناک ہے... خون کافی بہہ چکا ہے...ان کے سر پر گہرے زخم آئے ہیں...ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں... باقی اس خدا کے ہاتھ میں ہے... آپ لوگ دعا کریں... ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہتے ہوئے واپس اندر چلا گیا تھا اور وہ جو کسی اچھی خبر کی امید لے کر ان کے پیچھے آئی تھی ڈاکٹر کی بات سن کر اس کی سانس الجھی تھی... روتے ہوئے وہ دیوار کا سہارا لیکر الٹے قدموں سے پیچھے کو سرکی تھی جب ہی اس کے کاندھے پر حدید نے ہاتھ رکھا تھا تو وہ پیچھے مڑی تھی-

میرا عشق تم ہو (مکمل) Where stories live. Discover now