میت کو لے جایا جا چکا تھا اور باقی سب وہیں رہ گئے تھے۔ کسی کی دنیا ختم نہیں ہوئی تھی سب کچھ ویسے ہی تھا بس ایک فرد نہیں تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آبان کا سوئم گزر چکا تھا اور شہریار کو اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔
مرحا اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ویران آنکھیں لیے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ ایکسیڈینٹ جان بوجھ کر کروایا گیا تھا۔ مرحا ابھی پولیس اسٹیشن سے ہی آئی تھی۔
مرحا نے ٹی وی آن کرکے نیوز لگائی۔
جی ہاں ناظرین ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ ٹرک ڈرائیور وہی تھا جو کچھ دن پہلے منشیات کے ٹرک کے ساتھ پکڑا گیا تھا مگر کوئی ثبوت نہ ملنے پر اُسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا آبان ملک کی موت کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے یا پھر یہ سب صرف ایک اتفاق ہے؟
نیوز اینکر چیکھ چیکھ کر اور بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر مرحا کا دماغ ایک ہی نقطے پر اٹک چکا تھا۔ کیا یہ سب؟؟ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
کہ اچانک اسکا فون بجا۔ اُس نے بنا نام دیکھے کال ریوسیو کی اور فون کان سے لگایا۔
کیسا لگا ویڈنگ گفٹ؟ مقابل کے جملے پر اُسکو شدید غصہ آیا لیکن وہ ضبط کر گئی۔
تمہاری خاموشی بتا رہی ہے کہ تمہیں تحفہ کچھ خاص پسند نہیں آیا۔ خیر میں نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی۔ اُن کا قہقہہ گونجا۔
آپ کو لگ رہا ہے کہ ایسے کرنے سے آپ کوئی بہت عظیم انسان بن گئے ہیں تو ٹھیک ہے آپ یہی سمجھیں میں آپ کی اِس غلط فہمی کو دور نہیں کرونگی مگر یاد رکھیےگا جو لوگ دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں نا، اُن کے خود کے گھر بھی اُس ہی آگ کی لپیٹ میں آکر جل جاتے ہیں۔ اپنی باری کا انتیظار کیجیے گا، کیونکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے یہاں انسان جو بوتا ہے وہی پاتا ہے۔ یہ کہہ کر اُس نے کال کٹ کردی اور اوندھے منہ بستر پر گر گئی۔ اور وہ غصے سے پیج و تاب کھا کر رہ گئے انہیں مرحا کا اطمینان کھٹک رہا تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . مرحا نے محمود بٹ کے نام کی ایف-آئی-آر درج کروا دی تھی مگر کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کاروائی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اب بس اُسے شہریار کے ہوش میں آنے کا انتیظار تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . محمود بٹ اپنے کمرے میں سکون سے بیٹھے تھے جب ہمدان اُنکے پاس آیا۔
اگر آپکو فرصت مل گئی ہو تو جا کر اپنی بیٹی کو بھی دیکھ لیں۔ پانچ دن ہوگئے ہیں وہ یونی نہیں جا رہی، خود کو کمرے میں بند کیا ہوا ہے اُس نے۔ سنجیدگی سے کہہ کر وہ واپس مُڑ گیا۔
اور محمود بٹ اُٹھ کر لائبہ کے کمرے کی جانب چل دیے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ اوندھے منہ بستر پر لیٹی تھی۔ کمرہ اندھیرے میں نہایا ہوا تھا۔
محمود نے اُسکے کمرے کا دروازہ بجایا، مگر وہ بے سدھ لیٹی رہی۔
پھر انہوں نے اُسکو آواز دی تو اُسنے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور لائٹ جلا کر واپس بستر پر آبیٹھی۔
اُس کی متورم آنکھوں نے محمود بٹ کو ایک گلٹ میں مبتلا کردیا تھا۔
میری گڑیا کمرے میں کیوں بند ہے؟ اُنہوں نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
باپ کی چھاوں ملتے ہی وہ ایک بار پھر بکھر گئی۔ اُس کی آنکھ سے تواتر آنسو بہہ رہے تھے۔
کیا ہوگیا لائبہ۔ انہوں نے اُسکے گرد بازو ہائل کیا۔
پاپا آبان ہمیں چھوڑ کر کیوں چلا گیا؟
اُن کے گلے میں ایک گلٹی اُبھر کے معدوم ہوئی۔
بیٹا اُس کی زندگی اتنی ہی تھی۔
وہ مستقل رو رہی تھی۔
لائبہ بیٹا اب بس بھی کرو، اپنی آنکھیں دویکھو کیسی ہوگئیں ہیں۔ بس اب چُپ ہوجاو۔ اور جلدی سے فریش ہو کر نیچے آجاو۔
اُن کے لیے وہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔
میرے سر میں درد ہے میں آرام کرونگی۔ وہ آنسو کے درمیان میں بولی۔
کب سے ہے یہ درد۔
کچھ دنوں سے ہے۔ آرام کرونگی تو ٹھیک ہوجائے گا۔
نہیں تم ایک کام کرو جا کر فریش ہو پھر ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔
نہیں پاپا مجھے کہیں نہیں جانا۔
لائبہ بیٹا ضد نہیں کرتے میں انتیظار کر رہا ہوں جلدی سے نیچے آجاؤ۔ وہ تھوڑے سخت انداز میں کہتے نیچے کہ جانب بڑھ گئے اور وہ اپنے آنسو پیتی فریش ہونے چل دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . شہریار کو ہوش آچکا تھا مگر وہ دوائیوں کے زیرِاثر سو رہا تھا۔
مرحا ہسپتال کے کاریڈور میں بیٹھی تھی، اُسکے جاگنے کا انتیظار کر رہی تھی۔ حسن ہمیرا کو لے کر کچھ دیر پہلے ہی گھر گئے تھے۔
پیشنٹ شہریار حسن کے ساتھ آپ ہیں؟ نرس نے آکر پوچھا۔
اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور کھڑی ہوگئی۔
اُن کو ہوش آگیا آپ جا کر مل سکتی ہیں مگر خیال رکھیے گا پیشنٹ کو زیادہ بولنے کی زہمت نہیں دیجیے گا۔ نرس یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور مرحا اندر شہریار کے پاس۔
وہ آنکھیں کھولے چت لیٹا چھت کو تک رہا تھا۔
مرحا کے لیے اُس کو یوں پٹیوں اور نالیوں میں جکڑا دیکھنا انتہائی تکلیف دہ تھا۔
وہ قدم چلتی اُس کے برابر ایک اسٹول رکھ کر بیٹھ گئی۔
کیسے ہیں آپ؟ ناجانے اُس نے یہ کیوں پوچھا تھا۔
شہریار نے کوئی جواب نہ دیا نہ اُس نے آنکھیں گھما کر مرحا کو دیکھنے کی زہمت کی۔
شیری کچھ تو بولیں۔ اُس کے لہجے کی تڑپ وہ صاف محسوس کر سکتا تھا۔
آبان کہاں ہے؟ جب وہ بولا تو اُس کو اپنی آواز اجنبی سی لگی جیسے اُس نے زندگی میں پہلی بار کچھ کہا ہو۔ اور مرحا کو لگا جیسے وہ پہلی بار اُس کی آواز سُن رہی ہو۔ وہ جامد اُسے ہہ دیکھ رہی تھی کہ اُس کے سوال پر وہ نظریں جھکا گئی۔
اب وہ چہرہ موڑ کر مرحا کو دیکھ رہا تھا۔
مرحا کی آنکھیں ضبط سے لال ہوچکی تھیں۔
بولیں مرحا۔
آبان جا چکا ہے ہم سب کو چھوڑ کر۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کی آنکھ سے ایک آنسو لڑھک گیا۔
یہ الفاظ شہریار حسن کی روح جکڑ لینے کے لیے کافی تھے۔
شہریار نے زور سے اپنی آنکھیں میچیں۔
مرحا پلیز ڈاکٹرز سے کہیں کہ مجھے ڈسچارج کردیں میں آبان کو ایک آخری بار تو دیکھ لوں۔
مرحا نے نظریں اُٹھا کر اُسکو دیکھا۔
آبان کا سوئم بھی ہوچکا ہے شہریار۔
کیا مطلب ہے؟ وہ بے یقینی سے مرحا کو دیکھنے لگا۔
آپ کو پانچ دن بعد ہوش آیا ہے شہریار۔
یہ الفاظ شہریار کو پتھر کی طرح لگے تھے۔
اُس ہی وقت نرس اندر آئی اور مرحا کو باہر جانے کا کہا۔ ناچار وہ اُٹھ کر باہر آگئی اور شہریار کو دوبارہ دوائیوں کے زیرِ اثر سلادیا گیا تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . مرحا اگلے دن پھر ہسپتال آئی تھی مگر پولیس آفیسرز کے ساتھ، انہیں شہریار سے کچھ سوالات پوچھنے تھے۔
ہمیرا نے مرحا کے ساتھ پولیس آفیسر کو دیکھا تو تھوڑا حیران ہوئیں۔
مرحا اُن سے ملی۔
مرحا یہ پولیس کیوں آئی ہے؟ ہمیرا نے سوال کیا۔
وہ شہریار سے کچھ پوچھنا تھا بس اس لیے، گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ شہریار جاگ رہے ہیں؟
ہاں تھوڑی دیر پہلے ہی جاگا ہے۔
مرحا پولیس آفیسر کے ہمراہ شہریار کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
شہریار حسن کیا آپکو کسی پر شک ہے؟ ایس-ایچ-او شہریار سے سوال کر رہا تھا۔
ہہہم مجھے اپنے ایک دوست ہمدان پر شک ہے۔
مرحا نے حیرت سے شہریار کو دیکھا، جس کے چہرے پر درد واضح تھا۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گئی۔
اِس شک کی وجہ؟
جی وجہ ہے، وہ میری ہونے والی بیوی کو پسند کرتا تھا اور اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اور وہ اِس کے لیے کسی بھی حد تک حا سکتا تھا۔ وہ تھوڑا سا رُکا۔ یہ الفاظ شہریار کے منہ سے کیسے ادا ہوئے تھے صرف وہ ہی جانتا تھا۔
یہ بات مرحا کے لیے کسی بڑے شاک سے کم نہ تھی۔ وہ حیرت کی تصویر بنے شہریار کو دیکھ رہی تھی۔
اور کچھ دن سے میرے پاس انجان نمبر سے میسج آرہے تھے کہ اگر میں نے یہ شادی کی تو وہ مجھے مار دینگے۔ شہریار نے اپنی بات مکمل کی۔
تو آپکے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ میسج آپکے دوست نے کروائے ہیں؟
جی۔
کیا آپ مجھے وہ میسج دکھا سکتے ہیں؟
میرا موبائل اس ایکسیڈینٹ میں ٹوٹ گیا ہے جسکی وجہ سے میں آپکو میسج نہیں دکھا سکتا۔ شہریار نے جواباً کہا۔
آپ ایک کام کریں ہمیں اپنا موبائل دیدیں ہم ڈیٹا ریکور کرنے کی کوشش کرینگے۔
میری امی کے پاس ہے آپ اُن سے لیلیں۔
ایس-ایچ-او نے ایک کانسٹیبل کو اشارہ کیا تو وہ باہر موبائل لینے چلا گیا۔
شہریار صاحب کیا آپ ہمیں اور کوئی ڈیٹیل دے سکتے ہیں؟
ایکسیڈینٹ سے ایک دن پہلے کی بات ہے میرے پاس میسج آیا تھا کہ کل میرا آخری دن ہے۔ میں نے اُس میسج کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ اُن لوگوں کا نشانہ میں تھا لیکن چونکہ آبان ڈرائیو کر رہا تھا اس لیے وہ اُنکے نشانے کی زد میں آگیا۔ وہ گہری سانس لے کر بولا۔
مرحا سے اور برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ باہر چلی آئی۔
باہر وہ کاریڈور میں رکھی چئیر پر بیٹھ گئی اور سر ہاتھوں میں گرالیا۔
تھوڑی دیر بعد ایس-ایچ-او کانسٹیبل کے ہمراہ باہر آیا۔
مرحا آپ ہمیں کہہ رہی تھیں کہ اس سب میں محمود بٹ کا ہاتھ ہے اور یہاں تو کہانی کچھ اور ہی ہے۔ ایس-ایچ-او نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
مرحا کو غصہ آیا مگر وہ ضبط کر گئی۔
یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ یہ سب کس نے کروایا ہے۔ مگر چونکہ آپ کو ایمانداری سے زیادہ رشوت پیاری ہے اس لیے آپ تو چُپ ہی رہینگے۔ ٹھنڈے انداز میں کہتی وہ وہاں سے گھر آگئی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . مرحا جب سے آئی تھی اپنے کمرے میں بند تھی اُس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ سلمہ نے اُسے بلانے کے لیے ملازمہ کو بھیجا تو اُس نے منع کردیا۔ آبان کی باتیں اُس کے کانوں میں گونج رہیں تھیں۔ ماضی کا ایک لمحہ اُس کی آنکھوں کے سامنے دھندلانے لگا۔
" مما آپ کیوں میرے پیارے سے بھائی ڈانٹ رہیں ہیں؟ اُس نے بھنویں سکیڑ کر سلمہ بیگم سے پوچھا۔
موصوف کا کل امتحان ہے اور مجال ہے جو اس کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ وہ غصے سے بولیں۔
لیکن مما میرے سر میں تو جوں ہے ہی نہیں۔ اُس نے سنجیدہ رہنے کی بھرپور اداکاری کی۔
اُس کے انداز پر جہاں مرحا کی ہنسی چھوٹی وہیں سلمہ بیگم کا پارا آسمان پر چڑھ گیا۔
آبان ہر بات مزاق نہیں ہوتی۔
اچھا نا مما چھوڑیں میں ہوں نا میں پڑھادونگی اسکو، آپ جائیں۔ وہ آبان کا گال کھینچتے ہوئے بولی۔
ہاں تم ہی سنبھالو اپنے لاڈلے بھائی کو۔ وہ غصے سے کہتیں وہاں سے جا چکیں تھیں اور وہ دونوں ہنس دیے۔
یادوں کا تسلسل دروازہ بجنے کی آواز سے ٹوٹا۔
آجائیں۔ کہہ کر وہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
سلمہ بیگم اندر آئیں۔
میں نے فاخرہ کو بھیجا تھا تمہیں بلانے، تم آئی کیوں نہیں؟
مما مجھے بھوک نہیں ہے۔ اس نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
بیٹا کب تک یونہی پولیس اسٹیشن کے چکر لگاتی رہوگی؟ اگر ان لوگوں نے کچھ کرنا ہوتا تو کرلیتے۔ جانے والا تو چلا گیا تم اپنی زندگی کی طرف دیہان دو۔ وہ فکر مند لہجے میں بولیں۔
دیہان دوں؟ اپنی زندگی پر؟ مما ہم سب کی زندگیاں اُس سے جُڑی تھیں جس کو مار دیا گیا۔ ہاں میں مانتی ہوں کہ سب کی موت کا وقت مقرر ہے، مگر یوں اُس کو کیوں ماردیا؟ آخر میں اُس کی آنکھ میں آنسو بھر گئے۔ اُس نے آنکھیں بند کرکے آنسو اندر دھکیلے۔
مما آپ جائیں پلیز۔ یہ کہہ کر وہ کروٹ لے کر لیٹ گئی جسکا مطلب تھا کہ وہ اور بات نہیں کرنا چاہتی۔
مرحا عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ نیچے چلی آئیں۔
سلمہ بیگم کے جانے کے بعد وہ اُٹھی اور وضو کرنے چل دی۔
نماز پڑھنے کے بعد اُس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
میرے مالک مجھے صبر دے۔ یا اللّٰہ تجھے تو پتا ہے نا میں آبان سے کتنی محبت کرتی ہوں؟ میرے لیے خود کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ میری مدد فرما یارب۔
دعا مانگ کر وہ اُٹھی، پھر اُس نے قرآن اُٹھایا اور سورة العنکبوت کھول کر پڑھنے لگی۔
دوسری آیت پڑھ کر اُس کی آنکھ سے ایک آنسو پلکھوں کی جھالر توڑ کر نکل آیا۔
اُسکا ترجمہ کچھ یوں تھا:
" کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا""ہم نے تو ان کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے پس اللہ ظاہر کر کے رہے گا ان کو جو سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں"
"کیا سمجھ رکھا ہے ان لوگوں نے جو برائیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ وہ ہماری پکڑ سے بچ کر نکل جائیں گے ؟ بہت ہی برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں"
"جو کوئی بھی اللہ کی ملاقات کا امیدوار ہے تو (اسے یقین رکھنا چاہیے کہ) یقیناً اللہ کا معینّ کردہ وقت آکر رہے گا اور وہ سب کچھ سننے والا ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے"
سورۃ نمبر 29 العنكبوت
آیت نمبر ٢ تا ۵ناجانے کتنی ہی دیر وہ ان آیتوں کو پڑھنے کے بعد قرآن کو سینے سے لگا کر بیٹھی رہی۔
آنسو تھے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
یا اللّٰہ مجھے اس آزمائش کے لیے صبر عطا کر۔ اُس کے لبوں سے یہ جملہ نکلا۔
پھر اپنے آنسو صاف کرتی وہ اُٹھی، قرآن کو چوما، اُس پر گلاف چڑھایا اور اُسے رکھ دیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ ڈاکٹر کے پاس سے چیک اپ کروا کر آچکی تھی۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے تھے اُس نے وہ بھی کروالیے تھے مگر وہ اور محمود بٹ جب سے گھر آئے تھے، محمود بٹ کافی پریشان لگ رہے تھے۔ ہسپتال سے آنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلے آئے تھے اور دروازہ بند کرلیا تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .