#SunMereyHumsafar
#ZohaAsif
#17thEpisodeفون اس کے دوست علی کا تھا جو اس کے ساتھ آرمی میں تھا فون پر اس نے مشن میں کامیاب ہونے کی اطلاع دی تھی جسے سن کر شیری بہت خوش ہو گیا تھا ۔شہریار نے اس مشن کے لیے بہت محنت کی تھی اور مشن میں کامیابی کی اطلاح سن کر وہ بہت خوش ہو گیا تھا ۔وہ اپنی دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اب تک اپنے سارے مشن میں کامیاب ہوا تھا اسی وجہ سے اس کے سارے سینئر اس سے بہت خوش تھے ۔یہی بات اس کی شہرت کی وجہ بنی تھی شہریار اپنے دوست علی سے مزید بات کرتا رہتا اگر اس کی نظر اس کے موبائل پر نہ پڑتی اس کا موبائل سائلینٹ پر تھا تبھی اس کو اس کے سینئر کی کال کا پتہ نہ چلا تھا اس کے فون پر اس کے سینئر کی کال آ رہی تھی اور ساتھ ہی میسج بھی رسیو ہوا تھا ۔
"کال می اٹس ارجنٹ "
شیری نے علی کو خدا حافظ کہا اور اپنے سینئر کو کال ملائی۔
"السلام علیکم سر"
شہریار انتہائی ادب سے بولا تھا ۔
"وعلیکم السلام جوان۔ مشن میں کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں اور ساتھ ہی ایک نئے مشن میں تمہیں اپنے ساتھ اسسٹ کرنا چاہتا ہوں بولو کیا کہتے ہو ؟بلکہ تم مجھے اسسٹ کر رہے ہو۔۔"
اس کے سینئر شیری کو کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بغیر ہی بول رہے تھے ۔
"جی سر ۔یس سر۔ کیا مشن ہے؟ اور آپ نے اس کے لئے ابھی تک کیا پلان کیا ہے ؟"
شیری بولا تھا ۔
"دراصل ابھی بھی اطلاع ملی ہے کہ ایک گروپ گینگ کی صورت میں کل ایک سکول پر حملہ کرنا چاہتا ہے ۔وہ اس اسکول پر جہاں پر غریب طلبہ پڑھتے ہیں وہاں پر دہشتگردی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں ہر صورت میں ان کے ارادے کو ناکام بنانا ہے "
سینئر نے اسے آگاہ کیا تھا
"یس سر لیکن اگر مجھے اس کے بارے میں مزید تھوڑی سی معلومات فراہم کر دی جائیں تو بہت بہتر ہوگا "
شیری مزید معلومات جاننے کی خواہش رکھتا تھا کیونکہ اس سے وہ بہتر طور پر کل کے لئے تیار ہو سکتا تھا سینئر نے اسے اس کے کہنے پر مزید معلومات دے دیں تھیں۔
"اوکے سر میں ابھی اپنا ہوم ورک تیار کرتا ہوں۔ انشاءاللہ کل ان کے سارے ارادوں کو ناکام بنا دیں گے اور جو بھی افراد اس گروپ میں شامل ہیں ان کا نام و نشان تک مٹ جائے گا" اس کے لہجے میں اس کا پختہ ارادہ ظاہر ہو رہا تھا
"مجھے تم سے یہی امید تھی شاباش جوان "
انہوں نے مزید تھوڑی سی باتیں کرکے فون بند کر دیا تھا ۔جبکہ شہریار کل کی تیاری میں مصروف ہو گیا تھا ۔
☆☆☆☆☆
صبح کے سات بجے تھے ماہی اپنے کالج کے لئے تیار ہو رہی تھی وہ تیار ہو کر نیچے ڈائنگ میں پہنچی تو خلاف معمول شہریار کو دیکھ کر حیرت کا شکار ہوئی تھی ۔
"یہ بندر آج اس ٹائم یہاں کیا کر رہا ہے "
وہ صرف یہ سوچ ہی سکتی تھی کیونکہ وہ سب کے سامنے یہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتی تھی اگر وہ کہہ دیتی تو گھر کے سارے افراد سے اس کی شامت پکی تھی ۔
"السلام علیکم "اس نے آتے ساتھ سب کو سلام کیا تھا سب نے مسکرا کر اس کے سلام کا جواب دیا تھا جب کہ شیری اسے عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا ۔اس نے شیری کو اگنور کیا اور اماں سے ناشتہ لانے کو کہا ۔
"امی جان ناشتہ دے دیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے "
پانچ منٹ بعد اس کے سامنے میز پر اس کا ناشتہ رکھ دیا گیا تھا وہ ناشتہ کھانے میں مگن تھی جب اس کی نظر شیری پر پڑی وہ ابھی بھی اس کو اسی انداز سے گھور رہا تھا ۔ماہی نے پہلے تو اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور بعد میں شیری کو مسلسل اسے گھورتا ہوا دیکھ کر وہ بھی چڑ گئی تھی اس نے اسے میز کے نیچے سے زور سے ٹانگ ماری ۔شیری پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ پھر بھی اسے ویسے ہی گھور رہا تھا ۔ماہی نے اسے اشارے سے پوچھا تھا
"کیا ہوا ہے ؟کیوں ایسے دیکھے جا رہے ہو ؟"
شیری نے اسکے اشارے کا بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔اب وہ اسے کیا بتاتا کہ آج وہ کچھ زیادہ ہی پیاری لگ رہی تھی یا شاید شیری کی نظروں کو بھا گئی تھی اس لیے اس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا ۔
ماہی نے غصے میں آ کر اسے ایک اور ٹانگ ماری تھی مگر بدقسمتی سے یہ ٹانگ ارحان کو لگ گئی تھی ۔
"او !!!مر گیا !!!!"
"کیا بات ہے ماہی بھابی؟ میں نے آپ کو کیا کہا ہے ؟"
ارحان رونی صورت بنائے کہہ رہا تھا کیونکہ اس بار ماہی نے ٹانگ زیادہ زور سے ماری تھی پر وہ شیری کی بجائے ارحان کو لگ گئی تھی ۔ماہی کا نوالہ اس کے گلے میں ہی پھنس گیا تھا ۔
"سوری ارحان وہ میں ویسے ہی پاؤں ہلا رہی تھی تو غلطی سے تمہیں لگ گیا"
"اٹس اوکے" وہ منہ بنائے کہہ رہا تھا
جبکہ شہریار مسکرا دیا پرماہی نے اس کی مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی ۔
"ابو جان مجھے کالج چھوڑا آئیں مجھے دیر ہو رہی ہے "
ماہی اپنے ابو جان سے مخاطب تھی ۔
"بیٹا میں اور بھائی جان تو ابھی جلدی آفس کے لئے نکل رہے ہیں شیری تمہیں چھوڑ آئے گا"
ماہی کا نوالہ لیے اسکا ہاتھ منہ میں جاتا رکا تھا اس نے شیری کی طرف نگاہیں گھما کے دیکھا تھا وہ بھی اب اسے ہی گھور رہا تھا ۔
پندرہ منٹ بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے شیری ڈرائیو کر رہا تھا اور ماہی اسے مسلسل تیز چلانے کو کہہ رہی تھی ۔
"ماہی چپ کرو مجھے تم سے بھی زیادہ جلدی ہے "شہر یار تنگ آ کر بولا تھا ۔
"اوکے" ماہی ناراض ہو کر بیٹھ گئی تھی کیونکہ اسے کسی کا بھی اس پر زور سے بولنا پسند نہیں تھا شہریار نے اسے بعد میں منانے کا سوچ کر کالج ڈراپ کیا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا ۔
☆☆☆☆☆
اس وقت ارد گرد کا علاقہ بالکل سنسان تھا بس کچھ فاصلے پر ایک سکول سے پی ٹی کی آوازیں آ رہی تھیں کیونکہ گھڑی 8 بجا رہی تھی اور یہ وقت تمام اسکولوں کی اسمبلی کا ہوتا ہے ۔اسی وقت کچھ لوگ دبے قدموں سے اس سکول کی جانب بڑھ رہے تھے وہ اپنے قدم انتہائی خاموشی سے اٹھا رہے تھے گویا وہ کسی کو بھی اپنی آمد سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ وہ سکول کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے ۔سکول سے آتی پی ٹی کی آوازیں بہت تیز ہو گئیں تھیں اس وقت سکول میں اسمبلی ہو رہی تھی ۔تب ہی ان میں سے ایک شخص انتہائی خاموشی سے اسکول کی پچھلی دیوار سے سکول کے اندر پھلانگ گیا تھا ۔ایک کے بعد ایک کرکے ان کے سارے ساتھی اسی طرح سکول کے اندر پہنچ گئے تھےپھر ان کے بوس نے انہیں اپنی پوزیشن لینے کا کہا
#tobecontinued
۔
YOU ARE READING
سن میرے ہمسفر (COMPLETED)
Short StoryStory of an energetic girl Mahi and a Pakistani Soldier Sherry. They both love each other but don't confess. this story reflects true love of God that leads to a happier life😍😍