زندگی کے حسین رنگ

3.1K 174 159
                                    

باب # 5 :-

زندگی کے حسین رنگ

زندگی کتنی حَسِین ہے ،
ہم ناداں کیا جانے ،
پھولوں کی بستی ہے ،
رنگوں سے مہکتی ہے ،
کیسی کو غم ،
کیسی کو خوشیاں دے جاتی ہے ،
کبھی اپنوں سے دور ،
کبھی اپنوں كے پاس لے جاتی ہے ،
کبھی ہنساتی ہے ،
کبھی رلاتی ہے ،
کبھی حیران کر جاتی ہے ،
زندگی کتنی حَسِین ہے ،
ہم ناداں کیا جانے ،
(شازمہ عامر )

" کے . . . . کے . . . کون ہو تم ؟ "
زرمین نے بیلن پر اپنی گرفت اور سخت کرتے ہوئے کہا . .
" وہی رک جاؤ . "

" ریلکس . . . آپ میری بات تو سنے میں . . . . . "
وہ بولتے بولتے آگے بھر رہا تھا .

" خبردار آگے بھرے . . وہی رک جاؤ ورنہ یہ بیلن تمھارے سر پر ماروں گی . . "
زرمین نے اپنا بیلن والا ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا .

اور اندر آنے والے دوسرے شخص کو دیکھ کر بیلن زرمین كے ہاتھ سے گر گیا اور اسکے پاؤں کہ ناخن پر لگا . .

دوسرا شخص تو وہی مٹی کا مجسمہ بن گیا . جب كے اسکے پیچھے آتا شخص تیزی سے زرمین کی طرف بڑھا . . .

_______________________________________

" اسلام علیکم ! ماما . "

" وعلیکم سلام ! کیسی ہے میری بیٹی . "
( انہوں نے پیار بڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا )

" ٹھیک ہوں ماما پر بہت تھک گئی ہوں . "
( کہتے ساتھ ہی وہ پاس پرے صوفے پر بیٹھ گئی . )

زَر گل نے اپنی پیاری سی بیٹی کو دیکھا . جس كے چہرے پر سالوں کی تھکن عیاں تھی .

( اَحْمَد خان اور پِھر جبّار خان کی وفات كے بعد سردار خان نے انکی ذمہ داری سنبھال لی تھی . لیکن آخر وہ کب تک بھائی کی مدد لیتی جب كے وہ جانتی تھی کہ ان کے دونوں بھائی ان پر جان چیراکتے ہیں . وہ جانتی تھی پر وہ عورت تھی بے شک ان کے بھائی تھے لیکن بات پِھر وہی تھی آخر کب تک . ان کی بھی اپنی زیمایداریان تھی .
زرش کا بی۔اے مکمل ہونے كے بعد انہوں نے اپنے دِل کی بات اپنی بیٹی سے کی . .
اور بیٹیاں تو والدین کا مان ہوتی ہیں ، فخر ہوتی ہیں .
تو وہ کیسے انہیں نا امید کر سکتی تھی .
زرش نے گھر میں بچوں کو پڑھانے كے ساتھ ساتھ ایک اسکول میں بھی ملازمت شروع کر دی .
اور اپنی ماں کا سر فخر سے اونچا کر دیا . انہوں نے اپنے بھائیوں کو منع کردیا . آخر وہ بھی پٹھان تھی . . .
بس زَر گل کو شبریز کی فکر تھی . وہ اپنی مرضی کا ملک تھا نا پڑھائی مکمل کی اور نا ہی ٹک كے کوئی کاروبار کیا . . اور اسکی دوستی بھی اچھے لوگوں میں نہیں تھی .
زَر گل اللہ سے ہر وقت اسکے لیے ھدایت کی دعا کرتی رہتی تھی . )

خاموشی محسوس کر كے زرش نے سَر اٹھایا اور ہمیشہ کی طرح زَر گل کو سوچوں میں گم پایا .
وہ دھیرے سے مسکرائی اور اٹھ كے ان کے پاس جا كے انکی گود میں سَر رکھ كے بولی . .

اُسکی آنکھوں مِیں مِیرا عکس تھا۔Where stories live. Discover now