کھوکھر
کھوکھر پنجاب کی ایک قبائلی برادری ہے جو اس وقت پاکستان اور بھارت کے پنجاب کے علاقوں میں رہائش پزیر ہے۔ لفظ کھوکھر فارسی لفظ "خوخار" سے نکلا ہے جس کے معنی "لہو کھانے والے" کے ہیں۔ کھوکھر زیادہ تر مسلمان ہیں اور مذہب اسلام کے پیروکار ہیں۔ کھوکھروں نے اس وقت اسلام اپنایا کہ جب وہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے زیراثر آئے۔ قرون وسطی کے فارسی مورخ فرشتاں نے کھوکھروں کو اپنی تحریروں میں "مذہب کے بغیر ایک لڑاکا قوم" لکھا ہے۔ کھوکھر قبیلہ 13ویں سے 15ویں صدی کے دوران پنجاب کا سب سے طاقتور, بااثر اور سب سے غالب قبیلہ رہا. ایک زمانے میں کھوکھروں نے دہلی، لاہور اور کشمیر پر بھی قبضہ کیا اور وہاں اپنی حکومت قائم کی۔بالخصوص علاقہ پوٹھوہار، دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیان کھوکھروں نے ایک طویل عرصہ تک حکومت کی. پنجاب کے علاقے میں کھوکھروں کے پاس کافی رقبے ہیں۔ پرانے زمانے میں کھوکھر گھوڑوں کے شوقین رہے ہیں کیونکہ اس زمانے میں جنگوں میں گھوڑوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ کھوکھر کاشتکاری میں بھی شروع سے ماہر ہیں
کھوکھر قبیلے: نٹھر ریحان۔ جالپ۔ بھیکھ۔ نسوآنہ۔ ہرل۔ ٹونڈا۔ جوڑا بندیال۔ بھچر۔ جھاوری۔ ڈھب۔ گنجیال۔ گنجیرہ۔ ڈھولکہ۔ شیں مار۔ مجوکہ۔ راول۔ بیر۔ کلو۔ سجرائے۔ جچ۔ کھوکھر قبیلے کی اہم برادریاں ہیں
بنیادی شاخیں
[ترمیم]1) جاٹ کھوکھر
2) قطب شاہی کھوکھر : یہ اپنے نام کے ساتھ "ملک" لگاتے ہیں اور اپنا سلسلہ نصب "اعوان" قبیلے سے جوڑتے ہیں۔مگر یہ تحقیق طلب ہیں اور علوی الہاشمی اعوان انھیں تسلیم نہیں کرتے اب انھوں نے غازی عباس علمدار علیہ السلام سے بھی شجرہ جوڑنا شروع کر دیا ہے یہ شجرہ بھی مصدقہ نہیں
3) خانزادہ کھوکھر : یہ اپنی نسبت "خانزادہ" برادری سے کرتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ "خان" لگاتے ہیں۔
5) گجر کھوکھر
- بہرحال شاخ چاہے کوئی بھی ہو, مذہب کے لحاظ سے کھوکھر قبیلہ میں ہندو کرسچن اور مسلمان موجود ہیں۔
کھوکھر تاریخ
[ترمیم]کھوکھر جٹوں اور راجپوتوں کا درجہ اور رتبہ رکھنے والا ایک مسلمان قبیلہ ہے، جنگجو قوموں (مارشل قبائل) میں سے ایک ہے ــ متنوع راجپوت اور جٹ رتبے والے قبیلے کے طور پرکھوکھروں کی سب سے زیادہ تعداد جہلم اور چناب کی وادیوں میں ہے ـ اور بالخصوص جھنگ اور شاہ پور اضلاع میں ـ لیکن چاہے کم تعداد میں ہی سہی وہ زیریں سندھ ستلج اور لاہور کے علاوہ جہلم سے لے کر ستلج تک پہاڑیوں کے دامن میں بھی ملے ہیں ــ لیکن کھوکھرسابقہ روایت کے مطابق وہ بالاصل شمالی پنجاب میں آباد ہوئے ــ اور تیمور نے انھیں وہاں سے بے دخل کیا۔ جہلم اور چناب پر میدانوں کے کھوکھروں اک ارتکاز اور دامن کوہ کے کھوکھروں کا وسیع اختلاط اس نظریہ میں کچھ رنگ بھرتا ہے کہ وہ پہاڑوں سے نیچے کی طرف پھیلے نہ کہ جنوب سے اُوپر کی طرف۔ اکبر کے دور میں کھوکھروں کو ہوشیار پور کے دسوئیہ پرگنھ کا ایک بااثر اور اہم مسلمان قبیلہ دکھایا گیا تھا ـ اور مسلمان تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ تیمور کے حملے کے وقت کھوکھر لاہور پر قابض اور اپر باری دو آپ میں مقتدر تھے۔
کھوکھروں کے ماخذ بھی پنجاب کے کسی بھی قبیلے جتنے ہی مبہم ہیں۔ جالندھر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے اندر ہی شیخوں اعوانوں اور دیگر ان جیسوں کے ساتھ بیاہ کرتے ہیں نہ کہ راجپوت پڑوسیوں کے ساتھ ــ اسی طرح مغرب میں کھوکھر غزنی کے قطب شاہ کے سب سے بڑے بیٹے زمان علی کی اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں جو اعوانوں کا روایتی بزرگوں میں سے ہے ،۔ مگر علوی یہ دعوی تسلیم نہیں کرتےــ صورت چاہے کچھ بھی ہو، سیالکوٹ کے کھوکھر تو دیگر قبیلوں کے ساتھ باہمی شادیاں کرتے ہیں، مگر اعوان نہیں ــ گجرات میں زرخیز زمینوں کے مالک ہونے کی بنا پر کھوکھر چوہدری اور راجا کہلاتے ہیں ــ تاہم وہ اعوانوں کے ساتھ قرابت کے دعویدار ہیں اور ان کے ساتھ باہمی شادیاں کرتے ہیں ـ ہندوستان کی تاریخ میں کھوکھروں کا ذکر کافی جگہوں پر ملتا ہے ـ تیمور کے موّرخین کے مطابق کھوکھروں نے اس کی فوج کے خلاف مدافعت میں کافی اہم کردار ادا کیا ـ اکتوبر 1398ء میں تیمور نے دریائے بیاس کے کنارے جال کے مقام پر شاہ پور کے سامنے پڑاؤ ڈالا ـ یہاں اسے پتہ چلا کہ کھوکھر قبیلے کے نصرت نے ایک جھیل کے کناروں پر قلعے میں مورچہ قائم کر رکھا تھا ـ تیمور نے نصرت پر حملہ کیا اور اس کو شکست دے کر بہت سا مال اسباب اور مویشی لوٹ ليے ـ خود نصرت بھی قتل کر دیا گیا ،اس کے کچھ ساتھی بچ کر بیاس پار چلے گئے اس کے بعد ہمیں کھوکھروں کے کمانڈر،ملک شیخا یا شیخا کھوکھر کا ذکر ملتا ہے ـ جسے تیمور نے کُپلا یا ہر دوار کی وادی میں شکست دی اور قتل کیا تاہم ظفر نامہ اس بات سے اختلاف کرتا ہے ـاس میں علاؤ الدین کا تذکرہ شیخ کُکاری کے نائب کے طور پر کیا گیا ـ اس بعد ہم تیمور کی واپسی کے دوران میں جمیں میں آمد سنتے ہیں جموں کے نواح میں اس نے کافروں کے سات قلعوں پر قبضہ کیا جن کے لوگ ہندوستان کے سلطان کو جزیہ ادا کیا کرتے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو چکا تھا ـ ان میں سے ایک قلعہ ملک شیخا کُرکر کا تھا، لیکن ظفر نامہ کے مطابق قلعے کا مالک ملک شیخ کوکر کا ایک رشتہ دار شیخا تھا ـ اس طرح معاملہ کچھ واضح ہو جاتا ہے ـ نصرت کھوکھر بیاس کے کنارے قتل ہوا جس کے بعد اس کے بھائی شیخا نے تیمور کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس کے ساتھ ہی دہلی چلا گیا ـ کُپلا میں ماراجانے والا ملک شیخا سرے سے کھوکھر تھا ہی نہیں ،لیکن تیمور کی آپ بیتی میں ملک شیخا کو شیخا کھوکھر کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا گیا ہے غالباً ملک شیخا کا کوئی کھوکھر رشتہ دار تھا جس کا جموں کے قریب ایک چھوٹا سا قلعہ تھا ـ تیمور کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد شیخا صفحہ تاریخ سے غائب ہو جاتا ہے ،لیکن 1420ء میں کوئی 22 برس بعدجسرت ابن شیخا منظر پر ابھرتا ہے اس برس کشمیر کے بادشاہ نے سندھ پر چڑھائی کی تو جسرت نے حملہ کر کے اس کو شکست دی قید کیا اور سارا مال اسباب اپنے قبضے میں کیا اس کامیابی سے حوصلہ پاکر جسرت دہلی پر قبضے کے خواب دیکھنے لگا ـ تیمور جاتے وقت خضر خان کواپنا حاکم مقرر کر گیا ـ جسرت نے اس کی وفات کی خبر سنی تو بیاس اور ستلج پار کر کے مینا رہنماؤں کو شکست دی، لدھیانہ سے لے کر اُروبر تک کا علاقہ فتح کیا اور پھر جالندھر کی طرف بڑھا ـ جسرت نے حکمت سے زیرک خان کو قید کر کے واپس لدھیانہ
آیا اور پھر سرہند کا رخ کیا ـ سرہند کا قلعہ زیر نہ ہو سکا اور سلطان مبارک شاہ کی پیش قدمی نے اسے پسپا ہو کر لدھیانے جانے پر مجبور کر دیا ـ مبارک شاہ کیافواج نے لدھیانہ تک اس کا تعاقب کیا مگر ستلج عبور نہ کر سکیں کیونکہ جسرت نے ساری کشتیوں پر قبضہ کر لیا تھا آخر کار جب افواج نے دریا عبور کر لیا جسرت نے پہاڑوں میں تیکەر کے مقام پر ٹھکانہ کیا ـ لیکن جمّون کے رائے بہیم نے مبارک شاہ کی فوجوں کی راہنمائی کی اور انھوں نے جسرت کے قلعے کو تباہ برباد کر ڈالا ـ البتہ جسرت کی طاقت میں زیادہ کمی نہ آئی،کیونکہ جونہی مبارک شاہ واپس دہلی گیا جسرت نو راوی اور چناب پار کیے اور ایک بڑی فوج کو ہمراہ لاہور پر حملہ کر دیا اس نے چھ ماہ تک لاہور کا محاصرہ کیا ـ شہر کی انتہائی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بندی کی گئی تھی اور بڑی بہادری اور خوبی کے ساتھ اس کا دفاع کیا گیا ـ جب لاہور کو تسخیر کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو جسرت نے محاصرہ اٹھادیا اور کلانور کی طرف چلا گیا ـ اس جگہ سے اس نے جمّوں پر حملہ کودیا گذشتہ معرکے میں اس کے راجا نے بادشاہ کی فوجوں کی بسال تک راہنمائی کی تھی تاہم جسرت جب راجا اور اس کی سلطنت پر کوئی تاثر قائم نہ کر سکا تو وہ اپنی فوج میں ازسر نو بھرتی کرنے کے لیے دریائے بیاس کی جانب لوٹ آیا ـ دریں اثناء لاہور میں وزیر ملک سکندر کی سرکردگی میں تازہ فوج کی کمک آ پہنچی اس نے حاکم دیپال پور ملک رجب اور حاکم سرہند اسلام خان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا ،لہذا یہ آپنی آپنی فوج کی قیادت کر رہے تھے متحدہ فوج نو جسرت کے خلاف پیش قدمی کی اور اسے بہت زیادہ نقصان کے ساتھ پیچھے چناب پار دہکیل گرآپنی پہاڑی پناہ گاہ کی طرف جانے پر مجبور کر دیا ـ ہوشیار وزیر نے اب بے راہنما کھوکھروں کا تعاقب کیا اور دریائے راوی کے کنارے کنارے کلانور پہنچ گیا ـ وہاں جموں کے راجا سے مل کر اس نے بے شمار کھوکھروں کو ڈہونڈ نکالا جو مختلف مقامات پر چہپ گئیے تھے ان سب کو تہ تیغ کر دیا ان کارروائیوں کے بعد وزیر واپس لاہور آگیا ـ بادشاہ ،وزیر ملک سکندر کی بہادری اور دلیری سے بہت خوش ہوا اس نے اسے لاہور کا صوبیدار مقرر کیا اور محمودوحسن کو واپس دہلی بلابہیجا ـ شاہی فوجوں کو روانہ ہوئے ابھی زیادہ عرصی نہیں ہوا تھا کہ جسرت کھوکھر دوبارہ میدان میں نمودار ہوا ـ اس نے 12 ہزار کھوکھروں کی فوج جمع کرکے جموں کے راجا رائے بہیم کو شکست دے کر ہلاک کر دیا اور لاہور اور دیپال پور کے صوبوں کو تہ بالا کر دیا ـ حاکم لاہور ملک سکندر ،لاہور سے اس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا لیکن اس کی آمد پر جسرت آپنے لوٹ مار کے سامان کے ساتھ دوبارہ پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا ـ دریں اثناء حاکم ملتان ملک ابدالرحیم علا الملک کے انتقال کے باعث،ملک محمودحسن کو ایک فوج کے ہمراہ ملتان روانہ کیا گیا ـ غالباَ اسی دور میں حاکم کابل شاہ رخ مرزا کی ملازمت میں ایک مغل سردار امیر شیخ علی نے جسرت کے اکسانے پر بَھکر اور ٹھٹھہ پر حملہ کر دیا ـ ستمبر1427ء میں جسرت کھوکھر نے کلانور کا محاصرہ کر لیا اور ملک سکندر کو شکست دے کر لاہور کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ـ بادشاہ نے حاکم سامانہ رزق خان اور حاکم سرہند اسلام خان کو سرکردگی میں کمک روانہ کی، لیکن پیشتر اس کے کہ وہ لاہور کی فوج کے ساتھ شامل ہوتے ،ملک سکندر نے جسرت کو شکست سے دوچار کرکے اسے لوٹ مار کے سامان سے محروم کر دیا جو اس نے غارت گری کے باعث علاقے سے جمع کیا تھا ـ 1429ء میں حاکم کابل امیر شیخ علی نے شاہ رُخ مرزا کے توسط سے پنجاب پر حملہ کر دیا کھوکھروں نے اس کے ساتھ مل کر زیادہ غارت گری شروع کردی ـ لاہور پہنچنے پر اس نے حاکم لاہور ملک سکندر پر ایک سال کی آمدنی کے برابر خراج عائد کر دیا ـ اس کے بعد وہ دیپالپور روانہ ہو گیا اور وہاں پہچنے پر علاقے کو غارت کیا ـ فرشتہ کے مطابق اس موقع پر چالیس ہزار ہندؤوں کو قتل کر دیا گیا ـحاکم ملتان عمادالملک نے تلمبہ کے مقام پرشیخ علی پر اچانک حملہ کیا لیکن اسے ناکامی ہوئی ــ دریائے راوی کے ساتھ چلتے ہوئے مغل خیر آباد کی طرف بڑھے اور وہاں سے ملتان روانہ ہوئے ،جس پر 29مئی 1430ء کو حملہ کیا گیا ـ جب حملہ ناکام ثابت ہوا تو ملتان کا مکمل محاصرہ کر لیا گیاـ دریں اثناء دہلی سے مظفر خان گجراتی کے بیٹے فتح خان کی قیادت میں کمک آن پہنچی،لہذا امیر شیخ علی کی قیادت میں مغل فوجوں اور عمادالملک کے تحت دہلی اور پنجاب کی فوجوں میں زبردست خونریز جنگ لڑی گئی ـا ابتدا میں مغلوں کو کچھ کامیابی ہوئی ،لیکن فتح خان گجراتی کی موت نے ہندوستانیوں میں انتقام کی پیاس کو بڑھا دیا، لہذاوہ اس مستقل مزاجی اور مضبوط ارادے کے ساتھ لڑے کہ مغلوں کو شکست ہو گئی ـ فاتحین نے ان کا لگاتار تعاقب کیا اور ان کی ساری فوج کو یا تو تہ تیغ کر دیا گیا یا وہ دریائے جہلم کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب گئی ـ امیر شیخ علی آپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل کی طرف فرار ہو گیا ـ 1432ء میں نصرت خان گرگندز کو لاہور کا صوبیدار مقرر کیا گیا ـ پنجاب پر اس سال اور اگلے سال کے دوران ملک جسرت کھوکھر اور امیر شیخ علی نے حملہ کیا تاہم شاہی فوجوں نے ان حملوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ پسپا کر دیا ـ 1436ء میں سلطان محمد شاہ نے شیخا کھوکھر کے خلاف ایک مہم بھیجی جس نے اس کے علاقوں میں لوٹ مار مچائی ـ 1441ء میں سلطان نے بہلول خان کو دیپالپور اور لاہور کا حاکم مقررکر کے اسے جسرت کھوکھر کے خلاف بھیجا، مگر جسرت نے صلح کرلی اور اسے دہلی کے تخت کے خواب دکھائے اس کے بعد کھوکھر طاقت کونامعلوم وجوہ کی بنا پر زوال آگیا ـ
اکبر کے عہد میں باری دو آب میں لاہور کی سرکار کے 52 میں سے 5 محل چنہٹھ دوآب میں 21 پرگنوں میں سے سات کھوکھروں کے پاس تھے ـاس کے علاوہ ایک ایک محل بست جالندھر اور رچنا دو آپ میں بھی تھا ـ ملتان کی دیپالپور سرکار میں دس میں سے تین محل ان کے تھے ریورٹی نے اُس دور میں ان کی تعداد دو لاکھ نفوس بتائی ـ مندرجہ بالا تفصیلات کے باوجور کھوکھروں کی حیثیت کے ماخذ سے پردہ نہیں اُٹھتا ــ
گورداسپور کے کاٹل راجپوتوں کے متعلق بیان کیا گیا کہ اوّلین اسلام قبول کرنے والوں میں سے کچھ کو کھوکھر کہاگیا، لیکن وہ کہتے ہیں ہمارے اجداد میں سے ایک ریاست جمّوں میں واقع منگلا دیوی کے قلعے میں آباد ہوا اور پھر خیر پور پر قابض ہو گیا، خیر پور کی نسبت سے اس کی اولادیں کھوکھر کہلوانے لگیں ـ انھوں نے غزنی کے محمد کے عہد میں اسلام قبول کیا ـ نیز کاٹل ان کے ساتھ اس ليے شادیاں نہیں کرتے کیونکہ کھوکھر محمد غزنی کی کاٹل بیویوں کی اولاد تھے ـ
کھوکھر یا كھوكر جاٹوں كى ایک گوت ہے جو كہ ہندوستان میں اترپردیش اور پنجاب میں پائے جاتے ہیں ـ جاٹوں كے علاوہ کھوکھر لوگ راجپوتوں میں بھى پائے جاتے ہیں ـ اس کے علاوہ کھوکھر ڈوگروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ڈوگر تو زیادہ تر جٹ ہیں لیکن ان کے کچھ خاندان اپنی گوتیں بتاتے جن میں کھوکھرڈوگر بھی شامل ہیں۔
گڑہ اور متہرا كے اضلاع میں کھوکھر جاٹوں كے تقریباً 52 گاؤں ہیں ـ سكھ دہرم كے گرو گروہرگوبند جى كے ساتھى بھائى روپ چند جى بھی کھوکھر تھے جن كے نام كا ایک گاؤں بہٹنڈا ضلع میں واقع ہے ـ پاكستان میں کھوکھر لوگ دین اسلام كے پیرو كار مسلمان ہیں ـ بیرونى حملہ آور محمد غورى كے 1191ء والے حملے میں کھوکھر لوگوں نے محمد غورى كو برى طرح مارا تھا ـ مگر 1192ء والى جنگ میں كھوكھر لوگوں نے حصہ نہیں لیا تھا اس لیے رائے پتہورا كو محمد غوری سے شكست ہوئی ــ
شخصیات
[ترمیم]- ملک مصطفیٰ جسرت کھوکھر, شاہی مسلمان حکمران
- شیخا کھوکھر, شاہی مسلمان حکمران
- نصرت کھوکھر, شاہی مسلمان حکمران
- محمد گل کھوکھر, شاہی مسلمان حکمران
- جاوید اقبال پنچھی کھوکھر (شاعر، کہانیکار، مضمون نگار، کھوج کار، ایڈیٹر، ڈراما رائٹر، صاحب کُتب)
- ملک غلام شبیر قدیمی کھوکھر (صوفی گائیک)
- مصطفی نواز کھوکھر (پاکستانی سیاست دان)
- اسد علی کھوکھر (پاکستانی سیاست دان)
- خان کھوکھر (امیگریشن اینڈ ٹریول ایکسپرٹ)
- محمد حسنین کھوکھر (ڈاکٹر)
- جسٹس ریٹائرڈ فخر النساء کھوکھر
- نوریز شکور خاں
- ملک سیف الملوک کھوکھر
- ایم زمان کھوکھر
- ڈاکٹر ابوبکر کھوکھر(فارماسسٹ)
- ملک ارسلان علی کھوکھر ( آف گوجرہ )
کھوکھر علاقے
[ترمیم]- کوٹلیہ کھوکھراں
- بگھیلا کھوکھر (ضلع اوکاڑہ)
- کھوکھراں (ضلع بہاولپور)
- موسیٰ کھوکھر (ضلع بہاولپور)
- راماں کھوکھر (ضلع بہاولنگر)
- تگا کھوکھر (ضلع پاکپتن)
- کنڈل کھوکھراں (ضلع جہلم )
- کھوکھر (ضلع چکوال)
- کھوکھر بالا (ضلع چکوال)
- کھوکھر زیریں (ضلع چکوال)
- کھوکھرانوالہ (ضلع چنیوٹ)
- کھوکھر (ضلع حافظ آباد)
- کھٹالہ کھوکھراں (ضلع ساہیوال)
- بھکھی کھوکھراں والی (ضلع سرگودھا)
- نور پور کھوکھراں (ضلع سرگودھا)
- پنڈی کھوکھراں (ضلع سیالکوٹ)
- کوٹلی کھوکھراں (ضلع سیالکوٹ)
- کھوکھر (ضلع سیالکوٹ)
- کھوکھر حیدر (ضلع سیالکوٹ)
- کھوکھر چھبا (ضلع سیالکوٹ)
- ماچھی کھوکھر (ضلع سیالکوٹ)
- محال کھوکھر (ضلع سیالکوٹ)
- کھوکھر اشرف (ضلع قصور)
- محمود کھوکھر (ضلع قصور)
- علی پور ٹبہ (کھوکھراں) ضلع شیخوپورہ
- کالا شاہ کاکو (کھوکھراں) ضلع شیخوپورہ
- گُنہ اور (کھوکھراں) ضلع گوجرانوالہ
- غازی کھوکھر (ضلع گجرات)
- کھوکھر خانپور (ضلع گجرات)
- کھوکھر غربی (ضلع گجرات)
- ماڑی کھوکھراں (ضلع گجرات)
- کھوکھر (ضلع لودھراں)
- رکھ کھوکھر والہ (ضلع لیہ)
- کھوکھر والہ پکا (ضلع لیہ)
- کھوکھر والہ کچا (ضلع لیہ)
- کھوکھر خانگڑھ (ضلع مظفرگڑھ)
- کھوکھر شاہ جمال (ضلع مظفرگڑھ)
- محمد پور کھوکھر (ضلع ملتان)
- چک کھوکھر (ضلع نارووال)
- ڈفر کھوکھراں (ضلع ننکانہ)
- علی پور کھوکھراں (ضلع ننکانہ)
- نکو چک کھوکھراں (ضلع چنیوٹ)
- بلکے کھوکھر (ضلع چنیوٹ)
- موضع جسرت (ضلع چنیوٹ)
- لئو کھوکھراں(ضلع جھنگ)
- چک نمبر150ج ب (ضلع چنیوٹ)
مزید دیکھیے
[ترمیم]- ملک مصطفیٰ جسرت کھوکھر (کھوکھر حکمران)
- گکھڑ
- جاٹ قبائل
- راجپوت قبائل
- اعوان قبیلہ
- خانزادہ قبائل