معاویہ بن حکم
معاویہ بن حکم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
معاویہ بن حَکَم سُلَمی اصحاب صفہ میں شامل صحابی رسول ہیں
نام و نسب
[ترمیم]نام معاویہ، والد کانام حَکَم بن مالک بن خالد ہے ۔ معاویہ قبیلۂ بنو سلیم کے علاقہ میں رہتے تھے ۔ مدینہ منورہ آتے جاتے رہتے تھے پھر کچھ دنوں کے بعد مستقل طور پر مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی تھی [1]
اسلام
[ترمیم]ہجرت کے بعد کسی سنہ میں مشرف باسلام ہوئے،قبولِ اسلام کے بعد مکتب نبوت میں اسلام کی تعلیم حاصل کی،اپنی تعلیم اوراسلام کے واقعات کو وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ،تو اسلام کے بعض احکام سیکھے ،منجملہ اور تعلیمات کے مجھ کو ایک تعلیم یہ بھی ملی کہ جب کوئی چھینکے تو الحمد للہ کہو،اور جب کوئی چھینک کر الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کہو،ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ کسی نے چھینکا اور الحمد للہ کہا میں نے بآواز بلند یرحمک اللہ جواب دیا،لوگوں نے مجھ کو گھورنا شروع کیا میں نے کہا مجھے غضب آلود نگاہوں سے کیوں گھور رہے ہو میرے اس سوال پر لوگوں نے سبحان ال سبحان اللہ کہنا شروع کیا ،جب آنحضرتﷺ نماز ختم کرچکے تو پوچھا نماز میں کون بولا تھا لوگوں نے مجھ کو بتایا کہ یہ اعرابی تھا آپﷺ نے مجھ کو بلاکر فرمایا،نماز قرأ قرآن اور اللہ عز وجل کے ذکر کے لیے ہے ،جب تم نماز پڑھو تو تمھاری یہ شان ہونی چاہیے ،یعنی اللہ عزوجل کا ذکر، اورقرأتِ قرآن،معاویہ پر اس نرمی کا یہ اثر ہوا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نرم معلم نہیں دیکھا۔ [2] اسی دورانِ تعلیم میں انھوں نے جاہلیت کے اوہام کے متعلق چند سوالات کیے کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ ابھی زمانہ جاہلیت سے زیادہ قریب ہیں، ابھی اسلام کو آئے ہوئے زیادہ زمانہ نہیں گذرا،اس لیے ہم میں ابھی تک کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں،فرمایا تم ان کے پاس نہ جایا کرو، پھر پوچھا کہ بعض لوگ اوہام سے فال بدلتے ہیں،فرمایا یہ دل کے اوہام ہیں ان سے نہ متاثر ہونا چاہیے۔ پھر یہ سوال کیا کہ:یا رسول اللہ ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو خط کھینچتے ہیں جاہلیت کے تفادل کا ایک طریقہ تھا ،فرمایا بعض انبیا بھی خط کھنچتے تھے،اس لیے اگر کوئی ایسا خط کھینچے تو کوئی مضائقہ نہیں،آخر میں عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک لونڈی ہے،جو احد اورجوانیہ کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی،ایک دن وہ اس پر چڑھ گئی اور ایک بکری بھیڑیا لے گیا، میں انسان ہوں مجھے غصہ آگیا،میں نے لونڈی کو مارا، آنحضرتﷺ کو یہ ناگوار ہوا، آپ کو ناگواری دیکھ کر میں نے کہا اس کو اس کفارہ میں آزاد کرتا ہوں،فرمایا اس کو میرے پاس لاؤ میں لے آیا آپ نے ان سے پوچھا اللہ کہا ں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر ،پوچھا میں کون ہوں، اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں،فرمایا اس کو آزاد کردو،یہ مومنہ ہے۔
اصحاب صفہ
[ترمیم]معاویہ بن حکم کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صفہ میں تھا۔ ایک مہاجر صحابی ایک انصاری کے ساتھ ، دومہاجر دو انصاری اور تین مہاجر تین انصاری کے ساتھ گھر گئے ، اس طرح مہاجرین اصحابِ صفہ انصاری صحابۂ کرام کے درمیان میں کھانا کھانے کے لیے تقسیم ہو گئے ، چوتھے یا پانچویں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہ گئے ، تو آپ نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے ساتھ چلو، ہم لوگ چل دیے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے تو آپ نے فرمایا۔ اے عائشہ رات کا کھانا کھلاؤ ؟ وہ جو ، دلیا اورکھجور یا گوشت سے تیار شدہ کھانا لے کر آئیں ، ہم لوگوں نے کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ! ہم لوگوں کو اور کھلاؤ؟ تو وہ کھجور ، پنیر اور گھی میں تیار کر دہ کھانا لے کر آئیں ، ہم لوگوں نے کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے عائشہ! اب ہم لوگوں کو کچھ پلاؤ؟ وہ چند گھونٹ دودھ لائیں ۔ ہم لوگوں نے پیا۔ پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ ہمیں اور پلاؤ؟ وہ ایک بڑے پیالہ میں پانی لے کرائیں ۔ ہم لوگوں نے سیراب ہوکر پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: تم میں سے جو مسجد میں قیام کرنا چاہے وہ مسجد چلا جائے اور جو اسی جگہ قیام کرنا اور رات گذارنا چاہے یہیں قیام کرلے۔حضرت معاویہ کہتے ہیں ! سب نے بیک زبان ہو کر کہا: آپ پریشان نہ ہوں ، ہم لوگ مسجد میں چل کر قیام کر لیں گے ۔ ہم لوگ مسجد آگئے ۔ میں پیٹ کے بل سو گیا، آدھی رات کے قریب ایک شخص آکر مجھے اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارکر جگانے لگا۔ میں نے اپنا سراٹھا کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں ! قم فان ھذہ ضجعۃ یبغضہا اللّہ عزوجل‘‘ کھڑے ہو جاؤ اور سن لو! اس طرح لیٹنا اللہ تعالی کوناپسندیدہ ہے [3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ
[ترمیم]معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر ہم لوگ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے ، میرے بھائی علی بن حکم نے گھوڑے پر بیٹھ کر ایک خندق کی چھلانگ لگانی چا ہی لیکن گھوڑا چھلانگ نہ لگا سکا اور خندق کی دیوار علی رضی اللہ کی پنڈلی پر گرگئی، ہم لوگ اسے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پنڈلی پر دستِ مبارک پھیرا جس سے اسی وقت پنڈلی بالکل صحیح ہو گئی۔