محمد احمد سعید خان چھتاری
محمد احمد سعید خان چھتاری | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
صوبجات متحدہ کے کابینی وزیر | |||||||
مدت منصب 17 مئی 1923ء – 11 جنوری 1926ء | |||||||
| |||||||
صوبجات متحدہ کے گورنر | |||||||
مدت منصب 7 اپریل 1933ء – 26 نومبر 1933ء | |||||||
| |||||||
صوبجات متحدہ کے وزیر اعظم | |||||||
مدت منصب 3 اپریل 1937ء – 16 جولائی 1937ء | |||||||
| |||||||
قومی دفاعی کونسل کے رکن | |||||||
مدت منصب جولائی 1941ء – ستمبر 1941ء | |||||||
| |||||||
صدر المہام نظام حیدرآباد (یعنی وزیر اعظم حیدرآباد) (دو اصطلاحیں) | |||||||
مدت منصب ستمبر 1941ء – اگست 1946ء | |||||||
| |||||||
مدت منصب مئی 1947ء – 1 نومبر 1947ء | |||||||
| |||||||
ہندوستان کے چیف اسکاؤٹ | |||||||
مدت منصب 1955ء – 1982ء | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 12 دسمبر 1888ء چھتاری |
||||||
تاریخ وفات | سنہ 1982ء (93–94 سال)[1][2] | ||||||
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
اعزازات | |||||||
درستی - ترمیم |
لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب سر محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری جی بی ای، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای[4][5] کو عرفِ عام میں نواب چھتاری کہا جاتا ہے (پیدائش 12 دسمبر 1888ء[6][7] - وفات 1982ء) صوبجات متحدہ کے گورنر[8][9]، صوبجاتِ متحدہ کے وزیرِ اعلی،[10] نظام حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر (وزیر اعظم حیدرآباد)[11] کے علاوہ ہندوستان کے چیف سکاؤٹ تھے۔
ابتدائی زندگی اور خاندان
[ترمیم]نواب احمد سعید نواب محمد عبد العلی خان نواب چھتاری کے گھر[12] برطانوی ہندوستان کے صوبجات متحدہ میں چھتاری میں 12 دسمبر 1888ء[6] کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔[6] ان کی شادی اپنے چچا اور نواب طالب نگر عبد الصمد خان بہادر کی بیٹی سے ہوئی۔[6] ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرحت سعید خان رکھا گیا جو ہندوستانی کلاسیکل موسیقی میں اپنی دلچسپی اور شغف کی بنا پر معروف تھے۔[13]
گول میز کانفرنس
[ترمیم]نواب چھتاری نے 12 نومبر 1930 کو لندن میں سینٹ جیمز محل میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔[14] مسلمان وفد کی صدارت آغا خان سوم اور محمد علی جناح، سر محمد شفیع، مولانا محمد علی، ڈاکٹر شفاعت علی، سر محمد ظفراللہ خان، نواب چھتاری کے ساتھ فضل الحق کر رہے تھے۔[15]
حکومتی کونسل
[ترمیم]17 مئی 1923 سے 11 جنوری 1926 تک نواب چھتاری متحدہ صوبجات کی کابینہ میں وزارت کے عہدہ پر فائز رہے[16] اور پھر 1931 میں وزیرِ زراعت بھی بنے۔[17] دوسرے بڑے مسلمان زمینداروں بشمول راجا سلیم پور کی مانند نواب چھتاری بھی متحدہ صوبجات میں برطانوی انتظامیہ کے قابلِ بھروسا ساتھی تھے۔[18] انھیں اپریل سے نومبر 1933 تک اس کا گورنر بھی مقرر کیا گیا۔ گورنمنٹ آف ہندوستان ایکٹ 1935ء کو گول میز کانفرنس کی روشنی میں بنایا گیا، یکم اپریل 1937ء کو لاگو کیا گیا اور نواب چھتاری کو قومی زراعتی پارٹیوں کے رہنما کے طور پر کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی گئی۔ 1937 کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے وزیرِ اعلیٰ بھی رہے۔[19] جلد ہی انھوں نے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ چھوڑ کر متحدہ صوبجات کی حکومت میں وزیرِ داخلہ کا عہدہ سنبھال لیا جہاں ان کی تنخواہ 2٫500 روپے مقرر کی گئی۔[20]
نواب چھتاری ہندوستان کی قومی دفاعی کونسل کے جولائی سے اگست 1941 تک رکن رہے۔ انھوں نے اس عہدے سے مستعفی ہو کر حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جو اس ریاست کے وزیرِ اعظم کے مترادف تھا۔[21][22]
جناح کے ساتھ اختلاف
[ترمیم]17 اکتوبر 1936ء بروز اتوار نواب چھتاری نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسرے عام اجلاس مین شرکت کی جو لکھنؤ کے لال باغ کے پنڈال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت جناح نے کی تھی۔ اجلاس میں مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر سید حسین، راجا غضنفر علی خان، خان بہادر قلی خان، فضل حق، نواب جمشید علی خان وغیرہ بھی شریک تھے۔[23][24]
صدر المہام حیدرآباد
[ترمیم]نواب چھتاری کو نظام حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر کا عہدہ (یعنی حیدرآباد کی وزارت عظمی) اگست 1941ء کو دیا گیا۔[25] انھوں نے ستمبر 1941 سے یکم نومبر 1947 تک اس عہدے پر کام کیا۔[26]
6 ستمبر 1941 کو بہادر یار جنگ اور نظام حیدرآباد نے نواب چھتاری کو قابل منتظم کے طور پر سراہا۔ 1944ء میں نواب چھتاری کو نظام حیدرآباد نے سعید الملک کا خطاب عطا کیا۔[27] 25 نومبر 1945ء کو نواب چھتاری نے انسٹی ٹیوٹ آف انجینیرز (بھارت) کا سنگِ بنیاد رکھا۔[28]
1946 میں نظام حیدرآباد نے گورنر جنرل ہند کو تجویز دی کہ نواب چھتاری کو وسطی صوبجات اور برار کا گورنر مقرر کیا جائے۔[29]
چھتاری وفد
[ترمیم]11 جولائی 1947ء میں جب نظام نے ہندوستان کے آزادی کے بل کے التوا کو دیکھا تو انھیں پتہ چل گیا کہ ان کے اصرار کے باوجود ریاستوں کو ڈومینین کی حیثیت نہیں دی جا رہی ہے، انھوں نے دہلی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کی سربراہی نواب چھتاری کو سونپی گئی۔ اس وفد کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، برما سے ملاقات کرنی تھی۔[30][31] 17 اگست 1947ء کو نواب چھتاری نے ماؤنٹ بیٹن کو تحریری طور پر یہ خواہش پیش کی کہ وہ حیدرآباد کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔[32]
اگست 1947 میں سر والٹر مونکٹن جو نظام کے آئینی مشیر تھے اور نواب چھتاری نے رضاکاروں اور اتحاد المسلمین کے حملوں کے بعد استعفیٰ دیا مگر اسے قبول نہیں کیا گیا۔[33]
27 اکتوبر 1947ء کو رضاکاروں اور اتحاد المسلمین نے وفد کے اراکین، مونکٹن، نواب اور سر سلطان احمد کی رہائش گاہوں کے باہر مظاہرے کا بندوبست کیا اور اس طرح ان اراکین کی دہلی روانگی کو ناممکن بنا دیا۔[34] بعد میں ہونے والی گفتگو سے کوئی نتیجہ نہ نکل پایا اور یکم نومبر کو نواب چھتاری نے اپنی حیثیت کا اندازہ کرتے ہوئے ایگزیکٹو کونسل کے صدر کے عہدے کو چھوڑ دیا۔ مونکٹن نے بھی استعفے پر اصرار کیا۔
21 دسمبر 1947 کو گاندھی نے نواب چھتاری، حسین شہید سہروردی، برج لعل نہرو، رمیشوری نہرو، شیخ عبد اللہ، بیگم عبد اللہ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، بکشی غلام محمد، کچھ کے شہزادے، مہاراجا بھاؤنگر، اننت رائی پٹانی اور دیگر افراد کے ساتھ گفت و شنید کی۔
23 ستمبر 1948 میں نظام نے ریڈیو کی تقریر میں کہا: پچھلے نومبر میں ملیشیا نما اداروں نے وزیرِ اعظم نواب چھتاری کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا۔ نواب چھتاری -جن کی ذہانت پر مجھے پورا بھروسا ہے-، سر ولیم مونکٹن جو میرے آئینی مشیر ہیں اور دیگر وزرا کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس گروہ کی سربراہی قاسم رضوی نے کی تھی جس کا اس ملک سے کوئی مفاد نہیں تھا اور نہ ہی اس ملک کی کوئی خدمت کی تھی۔ انہی طریقوں کو اپنا کر ہی ہٹلر نے جرمنی میں عنانِ حکومت سنبھالی اور ملک میں دہشت پھیلا دی تھی۔ اس طرح ان لوگوں نے مجھے ناکام کر دیا۔[35]
عوامی زندگی
[ترمیم]23 اکتوبر 1931 کو نواب چھتاری نے عشائیہ دیا جس میں علامہ اقبال نے بھی شرکت کی۔[36] 1935 میں انھوں نے لندن میں ہندوستانی آموں کی نمائش کی اور وہاں رٹول قسم کا آم پیش کیا جسے پہلا انعام ملا اور اسے دنیا کا بہترین آم مانا گیا۔[37] 15 جنوری 1939 میں ان کا ایک پیغام ایک پمفلٹ میں چھاپا گیا جو "یومِ خواندگی" پر ایجوکیشن ایکسپینشن ڈیپارٹمنٹ نے منایا تھا۔[38] 1945 میں مہاتما گاندھی نے نواب کو دو خط بھیجے، پہلا خط پنچ گنی اور دوسرا سیوسگرام سے بھیجا۔[39] نواب چھتاری جامعہ اردو، علی گڑھ کے پیٹرن بھی رہے۔[40] انھوں نے دسمبر 1965 تا 6 جنوری 1982 تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے۔ اس کے علاوہ 1955 تا 1982 آل انڈیا بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے چیف سکاؤٹ بھی رہے۔[41]
القاب
[ترمیم]- 1888–1919: نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری
- 1919–1921 نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، ایم بی ای
- 1921–1922: نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای،[42] ایم بی ای
- 1922–1927: سیکنڈ لیفٹننٹ[43] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای، ایم بی ای
- 1927–1928: لیفٹیننٹ[44] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، سی آئی ای، ایم بی ای
- 1928–1931: لیفٹیننٹ نواب سر محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای،[45] ایم بی ای
- 1931–1933: کیپٹن نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای، ایم بی ای
- 1933–1936: کیپٹن نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی،[46] کے سی آئی ای، ایم بی ای
- 1936–1944: میجر[47] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای، ایم بی ای
- 1944–1946: میجر سعید الملک نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای، ایم بی ای
- 1946–1982: لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، جی بی ای،[48] کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای
خط زمانی
[ترمیم]سرکاری عہدہ | ||
---|---|---|
ماقبل دستیاب نہیں
|
صوبجات متحدہ کے کابینی وزیر 17 مئی 1923 – 11 جنوری 1926 |
مابعد دستیاب نہیں
|
ماقبل | صوبجات متحدہ کے گورنر 7 اپریل 1933 – 26 نومبر 1933 |
مابعد |
سیاسی عہدے | ||
ماقبل نیا انتخاب
|
صوبجات متحدہ کے وزیر اعلی 3 اپریل 1937 – 16 جولائی 1937 |
مابعد |
سرکاری عہدہ | ||
ماقبل نیا انتخاب
|
قومی دفاعی کونسل کے رکن جولائی 1941 – ستمبر 1941 |
مابعد خالی
|
ماقبل | صدر مجلس عاملہ نظام حیدر آباد (i.e. وزیر اعظم حیدرآباد) (پہلی دفعہ) ستمبر 1941 – اگست 1946 |
مابعد |
ماقبل | صدر مجلس عاملہ نظام حیدر آباد (i.e. وزیر اعظم حیدرآباد) (دوسری دفعہ) مئی 1947 – نومبر 1947 |
مابعد Mehdi Yar Jung
|
اسکاؤٹ | ||
ماقبل نیا انتخاب
|
بھارت کے چیف اسکاؤٹ 1955–1982 |
مابعد جسٹس محمد ہدایت اللہ
|
خودنوشت سوانح عمری
[ترمیم]- یاد ایام (1949ء) نواب احمد سعید خان نواب چھتاری کی خودنوشت سوانح عمری ہے، جس میں انھوں نے انتہائی فنکارانہ انداز میں اپنی زندگی کی جھلکیاں اور تجربات پیش کیے ہیں۔[49]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ بنام: Nawab Sir Muhammad Ahmad Said Khan Chhatari — National Portrait Gallery (London) person ID: https://www.npg.org.uk/collections/search/person/mp86451 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Archive Site Trinity College Cambridge ID: https://archives.trin.cam.ac.uk/index.php/khan-sir-muhammad-ahmad-said-1888-1982-knight-indian-politician — بنام: Sir Muhammad Ahmad Said Khan
- ↑ "The Sunday Tribune - Spectrum - Books"۔ Tribuneindia.com۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-23
- ↑ [1] Separatism Among Indian Muslims: The Politics of the United Provinces By Francis Robinson
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2011-06-11۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
{{حوالہ ویب}}
: صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown (link) - ^ ا ب پ ت Who's who in India, Burma & Ceylon۔ Who's who Publishers India۔ 1936۔ ص 307
- ↑ "National Portrait Gallery - Person - Nawab Sir Muhammad Ahmad Said Khan Chhatari"۔ Npg.org.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-23
- ↑ "Kashmir Information website"۔ 2008-09-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Constructing Post-Colonial India: National Character and the Doon School By Sanjay Srivastava by Sanjay Srivastava - 2005
- ↑ "Chief Minister"۔ Uplegisassembly.gov.in۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-23
- ↑ "Ibid."۔ 2008-09-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Celebrities: a comprehensive biographical thesaurus of important men and women in India-by Jagdish Bhatia - 1952 Page 27.
- ↑ The Lost World of Hindustani Music by Kumāraprasāda Mukhopādhyāẏa - 2006 -- Page 216
- ↑ "Round Table Conferences"۔ Story of Pakistan۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-23
- ↑ Muslim Delegation at 1930 Round Table Conference
- ↑ "United Provinces Assembly website"۔ 2009-04-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Journey to Forever.org
- ↑ Nawab of Chhatari (گوگل کیش شدہ نسخہ)
- ↑ Tribune India website
- ↑ "Hansard"۔ 2016-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "Ibid."۔ 2016-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "Ibid."۔ 2009-07-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "Muslim League meeting 17 October 1936 (گوگل کیش شدہ نسخہ)"۔ 2014-06-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "www.chowk.com"۔ 2008-10-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Nawab of Chhatari appointed President of the Executive Council of the Nizam of Hyderabad
- ↑ "www.atlaswords.com"۔ 2016-01-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ File 34(3)-G/1944 IOR/R/1/4/327 1944-1945 UK National Archives website
- ↑ "IEIAPSC.org"۔ 2008-11-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ UK National Archives
- ↑ "www.telangana.com"۔ 2016-07-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ www.telangana.com
- ↑ #11 Letter to Mountbatten (گوگل کیش شدہ نسخہ)[مردہ ربط]
- ↑ #11 Resignation of Sir Walter Monckton to Nizam (گوگل کیش شدہ نسخہ)[مردہ ربط]
- ↑ #12 Razakar/Ittehad-ul-Muslimeen demonstrations[مردہ ربط]
- ↑ Autocracy to Integration, Lucien D Benichou, Orient Longman (2000), p. 237
- ↑ "www.allamaiqbal.com"۔ 2012-06-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "www.rataulmangoking.com"۔ 2013-03-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "Dept. of Education, India website"۔ 2009-04-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ "www.gandhiserve.org (PDF)" (PDF)۔ 2016-03-03 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Urdunetwork آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ groups.yahoo.com (Error: unknown archive URL) at Yahoo.com
- ↑ "Boy Scouts of India website"۔ 2016-10-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-02
- ↑ Gazette Issue 32346 published on the 4 June 1921.
- ↑ Gazette Issue 32598 published on the 3 February 1922.
- ↑ Gazette Issue 33276 published on the 20 May 1927.
- ↑ Gazette Issue 33390 published on the 1 June 1928.
- ↑ Gazette Issue 33898 published on the 30 December 1932.
- ↑ Gazette Issue 34379 published on the 12 March 1937.
- ↑ Gazette Issue 37598 published on the 4 June 1946.
- ↑ Yad-e-Ayyam (گوگل کیش شدہ نسخہ)
بیرونی روابط
[ترمیم]- Karwaan-e-Aligarh : Nawab Chattariآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ aligarhmovement.com (Error: unknown archive URL)
- List of Governors of Uttar Pradeshآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ upgov.nic.in (Error: unknown archive URL)
- Text of Memorandum submitted by 14 Muslim leaders of India to Dr Frank P. Graham, United Nations Representative 14 August 1951
- Text of Memorandum Submitted by Muslim leaders of India to Dr Frank P. Grahamآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hvk.org (Error: unknown archive URL)
- صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown
- 1888ء کی پیدائشیں
- 12 دسمبر کی پیدائشیں
- 1982ء کی وفیات
- مقام و منصب سانچے
- اترپردیش کے سیاستدان
- اترپردیش کے گورنر
- بھارتی مسلم شخصیات
- جامعہ علی گڑھ
- علی گڑھ کی شخصیات
- غیر موجود جائے وفات
- ہندوستان کی نوابی ریاستوں کے منتظمین
- ہندوستانی بادشاہی
- ہندوستانی نائٹ
- جامعہ علی گڑھ کے فضلا
- بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان