مندرجات کا رخ کریں

عراق-روس تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
روس اور عراق کے سفارتی تعلقات

روس

عراق
سفارت خانے
روس کا سفارت خانہ، بغداد عراقی سفارت خانہ، ماسکو
مندوب
روسی سفیر عراق میں عراقی سفیر روس میں

روس اور عراق کے سفارتی تعلقات (انگریزی: Russia–Iraq relations) کا آغاز 16 مئی 1941 کو ہوا، جب سوویت یونین نے عراق کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس وقت سے، دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی، اور عسکری تعلقات نے اہمیت حاصل کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، روس اور عراق کے درمیان تعاون اور مکالمہ کے مختلف شعبوں میں اضافہ ہوا ہے[1]۔

تاریخی پس منظر

[ترمیم]

روس اور عراق کے تعلقات کی بنیاد 1941ء میں رکھی گئی جب سوویت یونین نے عراق کو تسلیم کیا۔ یہ اقدام سوویت یونین کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کا حصہ تھا۔ 1958ء میں عراق میں انقلاب کے بعد، دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید گہرائی آئی اور سوویت یونین نے عراق کی معیشت اور دفاع میں نمایاں کردار ادا کیا[2]۔

موجودہ تعلقات

[ترمیم]

روس اور عراق کے تعلقات میں حالیہ دہائیوں میں تیزی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی، اقتصادی، اور ثقافتی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ روس نے عراق کے ساتھ متعدد معاہدات کیے ہیں جن میں عسکری تعاون، تجارتی تعلقات، اور ثقافتی تبادلے شامل ہیں[3]۔

اقتصادی تعلقات

[ترمیم]

روس اور عراق کے درمیان اقتصادی تعلقات بھی اہم ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور روس نے عراقی تیل کی صنعت میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔ عراق نے بھی روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں[4]۔

دفاعی تعلقات

[ترمیم]

روس اور عراق کے درمیان دفاعی تعلقات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔ اس کے علاوہ، روس نے عراق کو ہتھیاروں اور دفاعی نظام فراہم کیے ہیں[5]۔

تعلیمی اور ثقافتی تعلقات

[ترمیم]

تعلیمی اور ثقافتی شعبے میں بھی روس اور عراق کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان طلباء کے تبادلے کے پروگرام موجود ہیں، جبکہ روسی اور عراقی یونیورسٹیوں کے درمیان تحقیقاتی تعاون بھی جاری ہے[6]۔

چیلنجز اور مواقع

[ترمیم]

روس اور عراق کے تعلقات میں کئی چیلنجز بھی موجود ہیں، جن میں مشرق وسطیٰ کی سیاست اور روس کا دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلق شامل ہے۔ تاہم، دونوں ممالک نے ان چیلنجز کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور تعلقات کو مستحکم بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھی ہیں[7]۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Russia-Iraq Relations: A Historical Perspective۔ Cambridge University Press۔ 2020۔ ص 89
  2. "Russia and Iraq: Early Years of Diplomacy"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17
  3. "Russia-Iraq Cooperation in Defense and Trade"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17[مردہ ربط]
  4. "Russia-Iraq Economic Relations"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17
  5. "Russia-Iraq Defense Cooperation"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17[مردہ ربط]
  6. "Russia-Iraq Educational Exchange"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17
  7. "Russia-Iraq Relations: Challenges and Future Prospects"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-17