عتاب بن اسید
عتاب بن اسید | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
والی مکہ | |||||||
مدت منصب ؟ – 642 | |||||||
حکمران | ابو بکر | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 612ء مکہ |
||||||
تاریخ وفات | سنہ 642ء (29–30 سال) | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | والی ، گورنر | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | خلافت راشدہ | ||||||
شاخ | راشدی فوج | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ حنین | ||||||
درستی - ترمیم |
عتاب بن اسید آپ صحابی رسول قرشی ہیں، اموی ہیں۔
نام و نسب
[ترمیم]عَتّاب بن أَسِيد بن أبي العيص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر وهو قريش بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان . کنیت أبو عبد الرحمن اور کہا گیا :أبو محمد. تھی ان کی والدہ کا نسب یہ تھا: زينب بنت عمرو بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر وهو قريش بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان .
ولادت
[ترمیم]ان کی ولادت 612ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی اس وقت اسلام کی ابتدا تھی۔
اسلام
[ترمیم]فتح مکہ کے دن ایمان لائے اور آپ کو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیس سالہ عتاب بن اسید کومکہ کا والی مقرر فرمایا اور ان کا روزینہ ایک درہم قرار پایا ، معاذ بن جبل کومکہ والوں کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ لوگوں کو دین کی باتیں بتائیں اور قرآن سکھائیں ،
پہلا حج
[ترمیم]24 ذیقعدہ 8ھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معہ صحابہ کرام مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، عتاب بن اسید سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے اسلام میں امیر ہوکر حج کیا،اس سال مسلمانوں نے بھی حج ادا کیا اور مشرکین نے بھی اپنے طریقہ پر حج کیا
عہد صدیقی
[ترمیم]صدیق اکبر نے اپنی خلافت میں مکہ کی امارت پر عتاب بن اسید مامور تھے،حضرت ابوبکر نے اپنے زمانہ میں پھر انھیں ان کے سابق عہدہ پر بحال کر دیا۔ [1]
وفات
[ترمیم]بعض مؤرخین کے مطابق عمر فاروق کے آخر میں وفات پائی جبکہ واقدی کے مطابق صدیق اکبر کی وفات کے دن یعنی 642ء آپ کی مکہ مکرمہ میں وفات ہوئی،وہیں دفن ہوئے،کل پچیس سال عمر پائی،بڑے صالح متقی تھے۔[2]
فضل وکمال
[ترمیم]کم سنی کی موت نے عتاب کے علمی کمالات کو چمکنے کا موقع نہ دیا، اس کے باوجود ارباب سیر انھیں فضلاے صحابہ میں شمار کرتے ہیں [3] چند احادیث نبوی بھی ان سے مروی ہیں عطاء اورابن مسیب نے ان سے مرسل روایت کی ہے۔ [4]
نماز باجماعت میں تشدد
[ترمیم]نماز با جماعت کے بارہ میں اتنے متشدد تھے کہ امارتِ مکہ کے زمانہ میں قسم کھا کھا کر کہتے تھے ،کہ جو شخص جماعت کے ساتھ نماز نہ ادا کرے گا،اس کا سر قلم کردوں گا، جماعت سے غفلت منافقوں کا کام ہے،اہل مکہ نے ان کے اس سختی سے گھبرا کر آنحضرتﷺ سے شکایت کی کہ آپ ﷺ نے کس اجڈ اعرابی کو عامل بنایا ہے۔ [5]
تدین
[ترمیم]عہدہ داروں کا ہدایا وتحائف سے دامن بچانا بہت مشکل ہے،عتاب باوجود یکہ کئی برس تک مکہ کے عامل رہے، لیکن اس سلسلہ میں کبھی کوئی چیز نہیں قبول کی، ایک مرتبہ کسی نے دو چادریں پیش کیں انھیں لے کر اپنے غلام کیسان کو دیدیا۔ [6]
قناعت
[ترمیم]عام طور پر حکام اورعہدہ داروں میں قناعت نہیں ہوتی، لیکن عتاب کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی،آنحضرتﷺ نے ان کے اخراجات کے لیے دو درہم روزانہ مقرر فرمائے تھے،عتاب اسی پر قانع رہے، کہا کرتے تھے کہ جو پیٹ دو درہم میں نہیں بھرتا اس کو خدا کبھی آسودہ نہ کریگا۔ [7]
نزول آیہ
[ترمیم]عقیلی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک کلام اللہ کی یہ آیت وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ترجمہ:اوراپنے پاس سے مجھ کو فتح یابی کے ساتھ غلبہ عطا فرما "من سلطان نصیر سے مراد عتاب کی ذات ہے [8] لیکن اس کی روایتی حیثیت قابل اعتبار نہیں تاہم اس سے اتنااندازہ ضرور ہوتا ہے،کہ عتاب کی شخصیت اس کا مصداق بن سکتی تھی تمام ارباب سیران کے فضائل وکمالات کے معترف ہیں،کان عتاب رجلا خبیراصالحا فاضلا عتاب باخبر صالح اور فاضل تھے۔ [9]