عبد اللہ بن ابی بکر
عبد اللہ بن ابی بکر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 610ء مکہ |
تاریخ وفات | سنہ 633ء (22–23 سال) |
زوجہ | عاتکہ بنت زید |
والد | ابوبکر صدیق |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
آپ کا نام عبد اللہ، والد کا نام عبد اللہ اور کنیت ابو بکر تھی اور والدہ کا نام قتیلہ (مصغر) تھا۔
آپ کی پیدائش کے بارے صریح طور پر کسی مورخ نے نہیں لکھا بس اتنا لکھا ہے کہ آپ اس وقت جوان تھے جب سرور دو عالم ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ والد کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن کعب بن لوی۔[1] والدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے: قتیلہ بنت عبد العزی بن عبد اسعد بن نضر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوی۔ [2] آپ کا نانا عبد العزی قریش کا بہت بڑا رئیس تھا۔ [3] آپ حضرت ابو بکر صدیق کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ [4]
بہن بھائی
[ترمیم]حضرت اسماء بنت ابی بکر آپ کی حقیقی ہمشیرہ تھی۔ [5] ان کے علاوہ آپ کے بہن بھائیوں میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر ، حضرت محمد بن ابوبکر اور حضرت ام کلثوم بنت ابوبکر شامل ہیں۔ [6]
قبول اسلام
[ترمیم]جب حضرت ابو بکر صدیق نے اسلام قبول کیا تو حضرت عبد اللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ [7] یوں آپ کا شمار سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شمار ہوتا ہے۔ [8] حضرت صدیق اکبر کی بیٹی اسماء بنت ابی بکر ذات النطاقین فرماتی ہیں کہ ہمارے ابا جان جس روز ایمان لائے گھر آئے اور ہم سب کو اسلام کی دعوت دی جب تک ہم سب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو گئے اور رسول اللہ کی تصدیق اور دین توحید کو قبول نہیں کر لیا مجلس سے نہیں اٹھے۔ [9]
ہجرت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمات
[ترمیم]ہجرت مدینہ کے وقت حضرت عبد اللہ کو جو تیز رفتار اور پہلوان تھے کفار کی جاسوسی کے لیے مقرر کیا گیا تا کہ آپ دن کے وقت قریش میں رہے اور حالات معلوم کرے اور ان کی خبریں نبی کریم اور ابوبکر صدیق تک پہنچائے۔ [10] تین روز تک نبی کریم اور حضرت ابو بکر صدیق غار ثور میں موجود رہے۔ ان دنوں میں ہر روز جب شب کا اندھیرا چھا جاتا تو حضرت عبد اللہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور قریش مکہ کی دن بھر کی تمام کارروائیوں سے مطلع کرتے اور پھر وہی غار میں موجود رہتے شب کے آخری وقت میں چپکے سے مکہ جا کر قریش میں گھل مل جاتے تھے۔ یہ ایک ایسا نازک موقع تھا کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر ذرا بھی شبہ ہوتا تو وہ شاید آپ کو زندہ نہ چھوڑتے۔ آپ بڑے ہوشیار اور ذی فہم نوجوان تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ روزانہ اپنے والد ماجد اور رسول اللہ ﷺ کے لیے روز کھانا بھی لے جاتے تھے۔ اس کام میں آپ کی ہمشیرہ اسماء بنت ابی بکر مدد کرتی تھی وہ کھانا تیار کرتی اور آپ لے جاتے تھے۔[11]
ہجرت مدینہ منورہ
[ترمیم]آنحضرت ﷺ نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو جو آپ کے خاص غلام تھے دو اونٹ اور چانچ سو درہم خرچ دے کر مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی دو صاحبزادیاں ام کلثوم بنت محمد ، فاطمہ بنت محمد اور آپ کی بیوی ام المومنین سودہ بنت زمعہ ، زید کی بیوی ام ایمن اور اس کے بیٹے اسامہ بن زید کو مدینہ لائے۔ [12] ساتھ ہی حضرت ابوبکر صدیق نے ایک خط عبد اللہ بن اریقط کو اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کے نام دے کر بھیجا کہ آپ بھی اپنی (سوتیلی) والدہ ام رومان اور اپنی بہنوں حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت عائشہ بنت ابی بکر کو لے کر مدینہ آ جائیں۔ [13] طلحہ بن عبید اللہ نے بھی ان کے ساتھ موافقت کی۔ چنانچہ اہلبیت کی رفاقت میں یہ تمام حضرات مدینہ منورہ آ گئے اور اس طرح یہ ٹہنیاں اپنے اصل کے ساتھ مل گئیں۔ آنحضرت نے خاص اپنی رہائش کے لیے مسجد نبوی کے متصل حجرہ تعمیر کیا۔ اس کی تکمیل کے بعد ابو ایوب کے گھر سے اہل و عیال کے ساتھ اپنے حجرہ مبارکہ میں منتقل ہو گئے۔ [14] دوسری طرف بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں ایک مکان جو حضرت حارثہ بن لقمان کا تھا اس میں حضرت ابو بکر صدیق کے اہل و عیال رہائش پزیر ہو گئے۔ [15]
شادی
[ترمیم]حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی شادی حضرت سعید بن زید کی ہمشیرہ عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل سے ہوئی تھی۔ حضرت عاتکہ شرف صحابیت سے بہرہ ور تھیں اور نہایت حسین و جمیل اور عاقلہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ [16] حضرت عبد اللہ کا ایک بیٹا اسماعیل حضرت عاتکہ کے بطن سے پیدا ہوا جو کم سنی میں ہی فوت ہو گیا تھا اسی وجہ سے حضرت عبد اللہ کی نسل آگے نہ چل سکی۔ [17]
طلاق و رجعت
[ترمیم]حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی عاتکہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جہاد پر جب دوسرے صحابہ کرام روانہ ہوئے تو آپ جہاد پر نہ گئے۔ اس بات پر آپ کے والد ماجد ابو بکر صدیق سخت غم ناک تھے۔ آپ کو آپ کی بیوی نے جہاد پر جانے کے لیے نہ کہا جس پر ابو بکر صدیق کو بہت دکھ ہوا اور انھوں نے عبد اللہ کو کہا اپنی بیوی کو طلاق دے دو مگر عبد اللہ نے پہلے تو طلاق نہ دی لیکن جب والد ماجد نے اصرار کیا تو آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ [18] آپ نے طلاق تو دے دی لیکن ندامت ہوئی اور عاتکہ کے فراق میں یہ اشعار کہے:
” | عاتکہ جب صبح ہوتی رہے گی اور آسمان پر ستارے حلقہ بنائے چمکتے رہیں گے میں تمہیں نہیں بھولوں گا۔ اس کے اچھے اخلاق اور مضبوط رائے تھی اور زندگی میں سیدھی روش اور سچائی والی تھی۔ میں نے اپنے جیسے کسی شخص کو اس جیسی کسی عورت کو طلاق دیتے نہیں دیکھا اور نہ کوئی عورت اس جیسی دیکھی ہے جسے بلاوجہ طلاق دے دی گئی ہو۔ | “ |
آپ کے عاتکہ کے مطلق اور بھی اشعار ہیں۔ [19]
حضرت ابو بکر صدیق بڑے رقیق القلب تھے وہ ان اشعار سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے عبد اللہ کو رجعت کرنے کی اجازت دے دی۔ [20]
غزوات
[ترمیم]آپ نے فتح مکہ ، غزوہ حنین اور غزوہ طائف کے میں شرکت کی۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ان دس ہزار مجاہدوں میں شامل تھے جو رحمت دو عالم ﷺ کے ہمرکاب تھے۔ طائف کے محاصرے کے دوران میں ایک دن آپ دشمن کی طرف سے آنے والے ایک تیر سے سخت زخمی ہو گئے۔ اگرچہ زخم بظاہر مندمل ہو گیا لیکن تیر کا زہر اندر ہی اندر کام کرتا رہا۔ [21]
شہادت و تجہیز و تکفین
[ترمیم]آپ غزوہ طائف میں تیر کے لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ زخم تو ٹھیک ہو گیا تھا لیکن اس تیر پر لگے زہر نے آپ کے جسم کو بے حد متاثر کیا جس کی وجہ سے آپ کی صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔[22] چنانچہ سرور دو عالم ﷺ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد شوال گیارہ ہجری میں زخم عود کر آیا اور اسی تکلیف سے آپ نے شوال گیارہ میں ہی وفات پا گئے۔ [23]
تجہیز و تکفین
[ترمیم]حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کو دو یمنی چادروں میں کفن دیا گیا تھا پھر وہ اتاری گئیں ، وہ آپ کے جسم اطہر سے لگی تھیں اس لیے حضرت عبد اللہ نے دونوں چادریں سنبھال لیں تا کہ انھیں کفنائی جائیں۔ بعد میں خود ہی کہنے لگے: میں نے بھلا وہ چیز کیوں روک رکھی ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے لیے ممنوع قرار دی۔ چنانچہ انھیں صدقہ کر دیا۔[24] آپ کی نماز جنازہ آپ کے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق نے پڑھائی۔ آپ کو قبر میں اتارنے کے لیے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر ، حضرت عمر فاروق اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ قبر میں اترے۔ ظہر کی نماز کے بعد خلیفتہ الرسول کے لخت جگر کو سپرد خاک کیا گیا۔ غزوہ طائف میں لگنے والے زخم کی وجہ سے آپ کی وفات ہوئی اس لیے آپ کا شمار شہداء طائف میں ہوتا ہے۔ [25]
عاتکہ کا پردرد مرثیہ
[ترمیم]حضرت عاتکہ بن زید کو اپنے شوہر کی وفات کا سخت صدمہ پہنچا۔ اس لیے حضرت عاتکہ نے آپ کی یاد میں کچھ اشعار کہیں:
” | قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تیرے غم میں میری آنکھ روئے گی اور میرا جسم غبار آلود رہے گا زہے قسم اس آنکھ کی جس نے تجھ جیسا جنگجو اور ثابت قدم جوان دیکھا اس پر تیر برستے تو ان کی بوچھاڑ میں گھستا ہوا اس وقت تک موت کی طرف چلتا رہتا جب تک کہ خون کی ندیاں نہ بہا لیتا | “ |
ابو بکر صدیق پر وفات کا اثر
[ترمیم]حضرت عبد اللہ کی وفات کے بعد ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے بیٹی! عبد اللہ کی شہادت میرے نزدیک بکری کے کان کی مانند ہے جو گھر سے نکال دی گئی ہو (آپ کا مقصد اس مصیبت کو کم جتانا تھا)۔ ام المومنین فرمانے لگیں، اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو صبر کرنے کی طاقت دی اور ہدایت پر آپ کی مدد فرمائی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق باہر گئے پھر گھر تشریف لائے اور فرمایا: اے بیٹی! شاید کہ تم نے عبد اللہ کو دفن کر دیا ہو، جبکہ وہ زندہ ہے؟ حضرت عائشہ نے پڑھا، انا للہ و انا علیہ راجعون۔ اے ابا جان! ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے غمزدہ ہو کر کہا کہ میں اللہ تعالی کی جو سمیع و علیم ہے پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود کی حرکتوں سے۔ پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اے بیٹی! کوئی شخص ایسا نہیں جس کے لیے اثر نہ ہو، ایک تو فرشتہ کا اثر اور دوسرا شیطان کا اثر (وسوسہ)۔ کچھ عرصہ کے بعد جب بنو ثقیف کا وفد ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہ تیر جو آپ نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا، ان کو دکھایا اور پوچھا تم میں سے کوئی اس تیر کو پہنچانتا ہے؟ بنو عجلان کے آدمی سعد بن عبید بولے: ہاں، اس تیر کو میں نے تراشا تھا اور اس پر پر لگایا اور اس کو تانت سے باندھ اور میں نے ہی اس کو چلایا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: اسی تیر نے میرے بیٹے کو شہید کیا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیرے ہاتھ اس کو عزت دی اور شہید ہوا اور تم کفر کی حالت میں مرو گے، کیونکہ وہ بہت خود دار ہے۔ [27]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 157
- ↑ طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد دوم حصہ سوم صفحہ 15
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 541
- ↑ سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 146
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 589
- ↑ سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 146
- ↑ صدیق اکبر مرتب مولانا سعید احمد اکبر آبادی صفحہ 445
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 590
- ↑ معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 234
- ↑ معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 5
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 589 اور 590
- ↑ معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 31
- ↑ گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 158
- ↑ معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 31
- ↑ گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 158 اور 159
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 591
- ↑ سیرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 146
- ↑ گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 159
- ↑ الصحابہ فی المیز الصحابہ تالیف علامہ ابن حجرعسقلانی اردو مترجم مولانا محمد احمد شہزاد علوی جلد سوم صفحہ 212
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 592
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 592 اور 593
- ↑ گلشن نبوی کے پھول سرفر و شان رسول ﷺ مولف ابو الفیاض علامہ سید عبد الرشید شاہ صفحہ 159
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 592
- ↑ الصحابہ فی المیز الصحابہ تالیف علامہ ابن حجرعسقلانی اردو مترجم مولانا محمد احمد شہزاد علوی جلد سوم صفحہ 212
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 592 اور 593
- ↑ سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 592 اور 593
- ↑ حضرت ابو بکر صدیق کے سو قصے مولف شیخ محمد صدیق منشاوی مترجم مولانا خالد محمود صفحہ 66