ضحاک
ضحاک ماردوش کو بعض روایتوں میں عربی اور بعض روایتوں میں شامی شداد کی اولاد بتایا گیا ہے۔ شاہنامہ میں ہے کہ شام کے بادشاہ ضحاک نے موقع پاکر ایران پر حملہ کیا اور جمشید کو شکست دے کر تخت پر قبضہ کر لیا اور بعض روایتوں میں اسے آشوری بتایا گیا ہے۔[1]
لفظ ضحاک اصل میں دہاک یا دہ آک ہے۔ عربوں نے اسے ضحاک لکھا ہے۔ ایک افسانوی نام ہے۔ امتداد زمانہ سے رنگارنگ افسانے اس سے متعلق ہو گئے۔ وہ کلمہ دھاکہ یا دیاکو اور اژی دھاکہ بھی لکھا گیا ہے۔ بعض مستشترقین جیگر المانی، ڈاکٹر جستی اور سیگل کی رائے ہے کہ اژی دھاکہ کو جدید فارسی میں اژدھائی لکھتے ہیں اور قدیم فارسی میں دہاک اس کا معرب ضحاک ہے۔ عربوں نے اژدھائی کو معرب کر لیا ہے اور وہ اس کو اژدہاق لکھتے ہیں۔ طبری اور البیرونی کہتے ہیں بیوراسپ اژدہاق وہی شخص ہے جس کا نام ضحاک ہے۔ عرب اس کو عربی اور اہل عجم اس کو عجمی کہتے ہیں۔ مسعودی لکھتا ہے کہ بیور اسپ بن اردو اسپ وہی شخص ہے جس کو دہ آک کہتے ہیں۔ ابن البلخی بھی بیورا سف کو اژدہاق کہتا ہے اور اس کے باپ کو اروند اسف لکھتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ جادو کے ذریعے اپنے آپ کو سانپ کی شکل میں دیکھلاتا تھا۔ اس لیے لوگ اس کو اژدہاق کہتے تھے اور تمام وائتوں میں اس کو جمشید کا بھانجہ کہا گیا ہے۔ ار اس کی ماں کا نام ورک (ودک) تھا۔ جو جمشید کی بہن تھی۔
مورخین نے دہ آک کا سبب یہ لکھا ہے کہ آک کے معنی آفت اور بری رسم کے ہیں اور یہ کلمہ اوستا میں اسی معنوں میں آیا ہے۔ پس اس ساتھ گویادس برائیاں اور آفتیں دنیا میں آئیں۔ حمد اللہ اور عین الدین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ بیور اسپ کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ بیور کے معنی دس ہزار کے ہیں۔ اس لیے ضحاک کے پاس دس ہزار گھوڑے تھے۔ غرض مشرقہ مورخین کی روایات منتشر اور افسانوی ہیں۔ فردوسی نے بھی ان روایات کو شاہنامہ میں بیان کیا ہے۔
مورخین نے ملوک و سلاطین غور کو سہاک نامی شخص کی اولاد میں شمار کیا ہے۔ منہاج سراج نے اس کو ضحاک لکھا ہے۔ میر خواندہ اور فرشتہ کا ماخذ بھی غالباً طبقات ناصری رہا ہے، وہ شہان غور کو ضحاک کی نسل سے سمجھتے تھے۔ افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ میں اس کلمہ کی بڑی اہمیت ہے، بامیان کے نذدیک شہر ضحاک اب بھی موجود ہے اور اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور افغانوں کے دس قبیلے سہاک کے نام سے مشہور ہیں، جن کے سات ہزار گھرانے ہیں اور یہ علاقہ فروار اور ہندوکش میں آباد ہیں۔
عبد الحئی حبیبی کا کہنا ہے کہ ان کلمات کی اصل سکہا ہے، جن کا ذکر بیروت نے ذکر کیا ہے اور وہ آریائی قبلے تھے، جو سیستان کے علاقے میں پھیل گئے اور رہنے لگے اور پھر یہ سرزمین سگستان کہلائی۔ جس کا معرب سجستان ہے۔ طبری نے بھی یہ روایت لکھی ہے کہ ضحاک کا مسکن زرنج سجستان تھا، پس جو کچھ تاریخ سوری کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ غور کے بادشاہ سہاک کی اولاد ہیں۔ وہ طبقات ناصری میں منہاج سراج کے بیان سے مطابقت رکھتا ہے کہ اس نے ضحاک جد اولین کہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ سہاک پشتو املا ہے۔ سہاک سکھا اور ضحاک تقریباً ایک ہی ہیں اور یہ سب آریائی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ حقائق کو افسانوں سے علحیدہ کر کے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکھا آریوں کے مشہور قبیلے تھے اور اسی نام سے مشہر اشخاق، قبیلے اور شہر ہوئے۔ امتعداد زمانہ سے یہ شخصیتیں غلط ملط ہوگئیں اور تاریخ نے افسانے کا رنگ اختیار کر لیا۔ اب ہم ضحاک تازی، سہاک، اژدہا، دہ آک اور اژدہاق میں فرق نہیں کرسکتے ہیں۔
تاریخی اسناد کے مطالعہ سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ یہ نام آریائی ہیں۔ ضحاک بامیان کے قریب ایک شہر ہے۔ سہاک ایک افغانی قبیلہ ہے۔ سہاکا ایک مشہور آریائی قبیلہ تھا۔ اس کے نام سے سکستان ہے اور ان سب کا باہمی تعلق ہے۔ درانیوں کا مشہور سگزئی ہے۔ پہلے اس کو سہاکزئی اور سکزئی کہتے تھے۔ یہ لوگ قندھار اور سیستان کے درمیان رہتے ہیں۔ ان کا تعلق یقینا سہاکا سے ہے، امتعداد زمانہ سے یہ اسحاق زئی مشہور ہو گئے، لیکن مورخین نے ان کا باپ ضحاک کو قرار دیا ہے۔[2]