شمالی ملبار
ഉത്തര മലബാര്/വടക്കേ മലബാര് North Malabar | |
---|---|
جغرافیائی/تاریخی علاقہ | |
سرکاری نام | |
شمالی ملابار سے طلوع آفتاب کا منظر | |
ملک | بھارت |
ریاست | کیرلا پونڈیچری |
حکومت | |
• مجلس | شمالی خطہ، کیرلا ماہے ذیلی ڈویژن، پونڈیچری |
رقبہ | |
• کل | 264 کلومیٹر2 (102 میل مربع) |
آبادی (2001)(approx.) | |
• کل | 4,800,000 |
• کثافت | 819/کلومیٹر2 (2,120/میل مربع) |
زبانیں | |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC 5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | ***670، ***671 اور ***673 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | KL-11, KL-12, KL-13, KL-14, KL-18, KL-57, KL-58, KL-59, KL-60 & PY-03 |
خواندگی | 94.52%% |
ودھان سبھا حلقہ | 24 |
نمائندہ شہر | شمالی خطہ، کیرلا ماہے ذیلی تقسیم، پودوچیری |
شمالی مَلَبار (انگریزی: North Malabar) بھارت کی ریاست کیرلا کا ایک تاریخی و جغرافیائی علاقہ ہے۔[1] یہ کیرلا کے کاسرگوڈ، کنور، ویاناڈ کی ماننتاواڑی تحصیل، کوژیکوڈ کے شمالی حصہ اور پونڈیچری کے ماہی پر مشتمل علاقہ ہے۔
برطانوی راج کے دور میں یہ علاقہ ملبار ضلع کا حصہ رہا۔ اور آزادی کے بعد ریاستِ مدراس کا حصہ بنا۔ ماہی کا علاقہ 13 جون 1954ء تک فرانسیسی حکومت کے زیرِ انتظام رہا۔ 1 نومبر 1956ء کو جب ریاستِ کیرلا کی تشکیل ہوئی تو ملبار ضلع کی چار جنوبی تحصیلوں کو چھوڑ کر جو تمل ناڈو سے جڑ گئے، باقی حصے کو اور جنوبی کنڑا ضلع کی کاسرگوڈ تحصیل کو تراونکور اور کوچی کے ساتھ جوڑا گیا۔
شمالی ملبار کیرلا کے شمال میں منجیشور سے شروع ہو کر جنوب میں دریائے کوراپوژا تک پھیلا ہوا علاقہ ہے۔
تفصیلات
[ترمیم]شمالی مالابار کا رقبہ 264 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 4,800,000 افراد پر مشتمل ہے۔
ثقافت و جغرافیہ
[ترمیم]شمالی ملبار کے سماجی ثقافتی پسِ منظر اور جغرافیہ کیرلا کے دیگر علاقوں سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔[2][3][4][5][6][7][8] دیسی ہندو، ماپلا مسلم، دیسی جین اور ہجرتی مسیحی قوموں کے سماجی ثقافتی رسم و رواج اور طور طریقوں کی وجہ سے یہ علاقہ مالامال ہے۔[9]
بولیاں
[ترمیم]شمالی ملبار علاقے میں ملیالم زبان کی کئی بولیاں رائج ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں کے تاجرینِ مصالحہ سے باہمی میل جول کی وجہ سے یہاں مروجہ بولیوں میں ان کی زبانوں سے مستعار الفاظ بہت ہیں۔ ان میں زیادہ تر جزیرہ نمائے عرب، ایران، چین، جنوبی کنڑا، میسور، کوڈاگو اور یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے ساتھ تجارتی کاروبار تھے۔ کاسرگوڈی ملیالم اور ماپلا ملیالم شمالی ملبار میں رائج بولیوں میں ہیں۔[10]
شمالی ملبار میں تاریخی ہجرت
[ترمیم]شمالی ملبار میں مختلف زمانوں میں مختلف علاقوں سے لوگ ہجرت کر کے آباد ہوئے۔ ان میں تین ہجرتیں اہم ہیں۔ تولو برہمنی ہجرت، نصرانی ہجرت، معلمین کی ہجرت۔[11]
قابلِ ذکر شخصیات
[ترمیم]شمالی ملبار کی قابلِ ذکر شخصیات میں حکمران، سماجی و ثقافتی نمائندے اور دوسرے مشاہیر شامل ہیں۔ ان میں پژاشی راجا، کے کیلاپن، ای کے ناینار، پنارائی وجین، پی ٹی اُشا، کاویا مادھون،[12] کانائی کونجی رامن، کے راگھون وغیرہ کے نام صفِ اول ہیں۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "North Malabar"
- ↑ Eleanor Kathleen Gough (1900), Nayar: North Kerala, University of California Press, (Berkeley, Los Angeles)
- ↑ Eric J. Miller (1954), Caste and Territory in Malabar, American Anthropological Association
- ↑ Praveena Kodoth (1998), Women and Property Rights: A Study of Land Relations and Personal Law in Malabar, 1880–1940’ Unpublished Ph.D. Dissertation, Department of Economics, University of Hyderabad
- ↑ Ravindran Gopinath, 'Garden and Paddy Fields: Historical Implications of Agricultural Production Regimes in Colonial Malabar' in Mushirul Hasan and Narayani Gupta (eds.)
- ↑ India's Colonial Encounters: Essays in Memory of Eric Stokes, Delhi: Monohar Publishers, 1993
- ↑ M. Jayarajan, Sacred Groves of North Malabar, Discussion Paper No. 92 آرکائیو شدہ 26 مارچ 2009 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ , Praveena Kodoth (2002), FRAMING CUSTOM, DIRECTING PRACTICES: AUTHORITY, PROPERTY AND MATRILINY UNDER COLONIAL LAW IN NINETEENTH CENTURY MALABAR [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cds.edu (Error: unknown archive URL)
- ↑ "Mappila Culture in Kerala-1"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2018
- ↑ Subramoniam, V. I. (1997). Dravidian encyclopaedia. vol. 3, Language and literature. Thiruvananthapuram: International School of Dravidian Linguistics. Cit-P-508,509.Dravidian Encyclopedia
- ↑ "Archived copy"۔ 21 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2010
- ↑ "Biographia"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2018
|
|