مندرجات کا رخ کریں

شاہ ولی اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہ ولی اللہ

محدّث دہلوی

(عربی میں: أحمد بن عبد الرحيم بن وجيه الدين بن معظم بن منصور المعروف بشاه ولي الله الدهلوي، الهندي، الحنفي، العمري العدوي القرشي العدناني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام قطب الدین احمد
پیدائش 21 فروری 1703ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضع پھلت، مظفرنگر ضلع، مغلیہ سلطنت،
(موجودہ مظفر نگر، اتر پردیش، بھارت)
وفات 20 اگست 1762ء (59 سال)

دہلی، مغلیہ سلطنت، موجودہ بھارت
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل ہندوستانی
اولاد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی [4]،  شاہ عبد القادر الدہلوی ،  شاہ رفیع الدین الدہلوی [4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد شاہ عبد الرحیم دہلوی [6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مدرسہ رحیمیہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  فلسفی ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [8][4]،  فارسی [6][4][9]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  فقہ ،  اصول فقہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں کتاب   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر امام مالک، امام محمد بن اسماعیل بخاری
متاثر شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حاجی شریعت اللہ، الشیخ محمد ناصر الدین البانی، اسرار احمد، جاوید احمد غامدی، عبداللہ فراہی

شاہ ولی اللہ (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند کے ممتاز اسلامی مفکر، محدث اور فلسفی تھے، جو مغلیہ سلطنت کے دور میں علم و دانش کا روشن مینار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق اصلاح کا بیانیہ پیش کیا اور "تحریک ولی اللہی" کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد مسلمانوں کی فکری اصلاح، اتحاد اور روحانی بیداری تھا۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ ولی اللہی اسلامی اصولوں، عقل اور اجتہاد کی بنیاد پر استوار تھا، جس میں معاشرتی بگاڑ اور فرقہ واریت کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ان کی تعلیمات نے برصغیر میں اسلامی احیاء کی ایک مضبوط تحریک کو جنم دیا۔[10]

ابتدائی زندگی

[ترمیم]

21 فروری 1703ء (1114ھ) کو موضع پھلت، ضلع مظفر نگر، اتر پردیش میں شاہ عبد الرحیم دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی علاقہ دہلی تھا، نسبی اعتبار سے آپ کا تعلق قبیلہ فاروقی سے تھا، رہائش کے لحاظ سے آپ کو دہلوی کہا جاتا ہے اور فقہی اعتبار سے آپ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔[11]

تعلیم

[ترمیم]

ابتدائی تعلیم

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا اور سات سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل کر لیا۔ ساتویں سال کے آخر میں انہوں نے فارسی اور عربی کے ابتدائی رسائل کا مطالعہ شروع کیا اور ایک سال میں ان کو مکمل کیا۔ بعد ازاں، انہوں نے صرف و نحو کی طرف توجہ مبذول کی اور دس سال کی عمر میں نحو کی مشہور کتاب "شرح جامی" تک پہنچ گئے۔[12]

اعلیٰ درسی علوم

[ترمیم]

صرف و نحو سے فراغت کے بعد شاہ ولی اللہ نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی جانب توجہ دی اور پندرہ سال کی عمر میں تمام متداول درسی علوم سے فارغ ہو گئے۔ اس عرصے میں آپ نے زیادہ تر کتب اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی سے پڑھیں۔ پندرہ سال کی عمر کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا آغاز کیا اور 17 سال کی عمر میں اپنے والد سے بیعت و ارشاد کی اجازت بھی حاصل کی۔[13]

مسند درس و ارشاد

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے 1143ھ تک اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی کی مسند درس و ارشاد کو سنبھالا اور خلقِ خدا کو علمی و روحانی فیض پہنچایا۔ اس دوران انہوں نے لوگوں کو علمِ دین سکھانے کے ساتھ اصلاح و تربیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

حرمین شریفین کا سفر

[ترمیم]

1143ھ میں، جب آپ کی عمر تقریباً 30 سال تھی، آپ نے حرمین شریفین کا سفر کیا اور وہاں کے مشائخ سے مختلف علوم حاصل کیے۔ شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی سے "بخاری شریف" کی سماعت کی اور "صحاح ستہموطا امام مالک، مسند دارمی اور امام محمد کی "کتاب الاثار" ان کے سامنے پڑھی۔ مزید برآں، شیخ عبد اللہ مالکی مکی اور شیخ تاج الدین حنفی سے بھی آپ نے علمی استفادہ کیا۔[14]

درس و تدریس

[ترمیم]

حرمین شریفین سے واپس آ کر والد کے بنائے مدرسہ رحیمیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

اصلاح کا کام

[ترمیم]

سیاسی اصلاحات

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے مختلف بادشاہوں اور امراء سے خط و کتابت کی۔ انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد اور حفاظت کے لیے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا، جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دی۔ یہ حملہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا اور سیاسی استحکام کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

سماجی اصلاحات

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں میں سماجی اصلاحات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ اس زمانے میں ہندوؤں کے اثر کی وجہ سے بیوہ عورتوں کی شادی کو برا سمجھا جانے لگا تھا، جس کی شاہ ولی اللہ نے شدید مخالفت کی۔ انہوں نے اس رسم کو ختم کرنے پر زور دیا اور اسی طرح شادی میں بڑے بڑے مہر باندھنے اور خوشی و غم کے مواقع پر فضول خرچی سے بھی منع کیا۔ شاہ ولی اللہ نے ان مسائل پر خاص توجہ دی اور ان رسوم کو ختم کرنے کی تلقین کی۔

فرقہ وارانہ اختلافات کا خاتمہ

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلمانوں کو اختلافات میں انتہا پسندی کے بجائے اعتدال کی راہ اپنانے کا درس دیا تاکہ مسلمان باہمی تنازعات سے بچ سکیں۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو ایک متحد امت بنانا تھا جو اسلامی اصولوں پر کاربند ہو۔

تصوف کی اصلاح

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے تصوف میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کی اور اس میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ انہوں نے پیری مریدی کے غلط طریقوں کی مخالفت کی اور صوفیانہ تعلیمات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک تصوف کی اصل روح اللہ تعالیٰ کے قرب کی جستجو تھی، نہ کہ دنیاوی مفاد یا مریدوں کی تعداد میں اضافہ۔

کارنامے

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ دہلوی نے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور معاشرتی اصلاح کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کے کام نے مسلمانوں کی فکری اور روحانی زندگی کو گہرے انداز میں متاثر کیا اور ان کے فلسفہ اور اصلاحی تحریک نے آنے والی نسلوں پر بھی دیرپا اثرات چھوڑے۔[15]

قرآن کا ترجمہ

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی زبان فارسی تھی اور قرآن چونکہ عربی میں تھا، اس لیے اکثر لوگ اسے براہ راست سمجھنے سے قاصر تھے۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کیا اور عام مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا، جس کے نتیجے میں زیادہ لوگ قرآن کے پیغام کو سمجھنے لگے۔[16]

تصانیف اور علمی خدمات

[ترمیم]
شاہ ولی اللہ دہلوی کی مشہور تصانیف
# کتاب کا نام موضوع زبان مختصر تفصیل
1 حجۃ اللہ البالغہ اسلامی عقائد و فلسفہ عربی یہ شاہ ولی اللہ کی مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے اسلامی عقائد اور تعلیمات کی وضاحت کی ہے۔
2 الفوز الکبیر فی اصول التفسیر علم تفسیر عربی اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر پر بحث کی ہے اور قرآن فہمی کے اصول بیان کیے ہیں۔
3 ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء نظام خلافت فارسی یہ کتاب خلافت اور اسلامی ریاست کے نظام پر تفصیلی بحث کرتی ہے۔
4 الانصاف فی بیان سبب الاختلاف فقہی اختلافات عربی اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے فقہی اختلافات کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔
5 تحفۃالمجاہدین جہاد کے اصول عربی یہ کتاب اسلامی نقطۂ نظر سے جہاد کے اصول اور اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
6 فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن ترجمہ قرآن فارسی یہ شاہ ولی اللہ کا قرآن کا فارسی ترجمہ ہے، جو عام مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کیا گیا۔
7 البدور البازغہ علم الکلام عربی اس کتاب میں اسلامی عقائد پر مبنی مسائل کا فلسفیانہ جائزہ لیا گیا ہے۔
8 القول الجمیل تصوف عربی یہ کتاب تصوف اور روحانیت کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی اہم تصنیف ہے۔
9 رسالہ فی علم التوحید علم التوحید عربی اس رسالے میں اسلامی توحید کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔
10 عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید اجتہاد و تقلید عربی یہ کتاب اجتہاد و تقلید کے احکام اور اصولوں پر مشتمل ہے۔

ازالۃ الخفا اور خلافت کا نظام

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے اسلامی ریاست اور اس کے نظام پر ایک اہم اور منفرد کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی زبان میں تالیف کی۔ یہ کتاب خلافت، حکومت اور اسلامی نظام کے اصولوں پر بحث کرتی ہے اور اس میں اسلامی ریاست کے بارے میں مفصل ابحاث پیش کی گئی ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی نے کیا جو آرام باغ، کراچی سے شائع ہوا۔[17]

فلسفہ ولی اللہی

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ کا فلسفہ ولی اللہی اسلامی اصولوں، اعتدال، اور اجتہاد پر مبنی تھا، جس نے مسلمانوں کو اپنے دین کی اصل تعلیمات کی طرف واپس آنے کا درس دیا۔ ان کے فلسفے کا مقصد تھا کہ اسلامی معاشرت کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔[18]

تحریک ولی اللہی

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ نے تحریک ولی اللہی کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اسلامی معاشرت میں اصلاح، اخلاقی بیداری اور سماجی انصاف کی ترویج تھی۔ اس تحریک نے برصغیر میں اسلامی بیداری اور احیاء کی لہریں پیدا کیں اور آنے والے مصلحین کے لیے ایک فکری اور عملی بنیاد فراہم کی۔[19]

مجدد اور احیائے دین

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ کو اپنی صدی کا مجدد بھی سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ غزالی، ابن تیمیہ اور مجدد الف ثانی۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں مذہبی بیداری کا شعور پیدا کیا اور ان کی اولاد اور شاگردوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا، جس سے ہند و پاک کے مسلمانوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔[20]

جانشین

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز عربی اور فارسی کے انشا پرداز تھے اور 60 سال تک دینی علوم اور احادیث کی تعلیم دیتے رہے۔ وہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا۔

دوسرے صاحبزادے شاہ رفیع الدین کا سب سے بڑا کارنامہ اردو میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہے۔

تیسرے صاحبزادے شاہ عبد القادر دہلوی کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کی اردو تفسیر ہے جو "موضح القرآن" کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر آج بھی انتہائی مقبول ہے۔

چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔

شاہ ولی اللہ کی اولاد میں شاہ اسماعیل شہید کا مقام بھی بہت بلند ہے۔ آپ شاہ ولی اللہ کے چوتھے صاحبزادے, شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شاہ صاحب کے کام کو سب سے زیادہ ترقی شاہ اسماعیل نے ہی دی۔ وہ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں "تقویۃ الایمان" سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔

برصغیر میں غلبہ اسلام اور اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کرنے والی عظیم شخصیت سید احمد بریلوی شہید, شاہ عبد العزیز کے شاگرد اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔ شاہ صاحب نے فک کل نظام کا فتوی دیا جس کا مطلب تمام فرسودہ نظام کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس کی جگہ عادلانہ نظام کا قیام کیا جائے۔

وفات

[ترمیم]

20 اگست 1762ء بمطابق 1174ھ کو 59 سال کی عمر میں دہلی میں وفات پائی، دہلی کےقبرستان مہندیان (عقب ارون اسپتال دہلی گیٹ) تدفین ہوئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/104131144 — اخذ شدہ بتاریخ: 28 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13203124x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/8995 — بنام: Aḥmad ibn ʿAbd al-Raḥīm Šāh Walī Allāh al-Dihlawī
  4. ^ ا ب صفحہ: 21 — https://ia802807.us.archive.org/25/items/THETHEOLOGICALTHOUGHTOFFAZLURRAHMANTHESISBYAHADMAQBOOLAHMED/THE-THEOLOGICAL-THOUGHT-OF-FAZLUR-RAHMAN-THESIS-BY-AHAD-MAQBOOL-AHMED.pdf
  5. Encyclopaedia of Islam اور Encyclopédie de l’Islam
  6. ^ ا ب https://archive.org/details/misquotingmuhamm0000brow/page/28/mode/2up?q=dilawhi&view=theater
  7. صفحہ: xxiv — https://archive.org/details/book-shah-wali-allah-hujjat-allah-al-baligha.-english/page/n23/mode/2up
  8. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13203124x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  9. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : BnF catalogue général — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ — ربط: بی این ایف - آئی ڈی
  10. محمد انور کاظمی (2005)۔ فلسفہ ولی اللہی: شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و نظریات۔ اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی۔ صفحہ: 45–47 
  11. محمد اسلم رضا (2002)۔ تاریخ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کا مقام۔ لاہور: ادارہ علوم اسلامی۔ صفحہ: 23–24 
  12. رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ: ١/ ٣٦
  13. رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ: ١/ ٣٦
  14. (رحمۃ اللہ الواسعہ: 36/١)
  15. محمد انور کاظمی (2005)۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اور تحریک۔ اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی۔ صفحہ: 45–50 
  16. جمیل احمد (2003)۔ شاہ ولی اللہ کی تفسیری خدمات۔ لاہور: قرآنی علوم مرکز۔ صفحہ: 23 
  17. عبدالشکور فاروقی مجددی (1998)۔ ازالۃ الخفاء: اردو ترجمہ۔ کراچی: قدیمی کتب خانہ 
  18. تقی الدین رحمانی (2007)۔ "فلسفہ ولی اللہی اور اس کی بنیاد"۔ اسلامی فکر۔ 15 (3): 12–15 
  19. غلام محی الدین صدیقی (2004)۔ تحریک ولی اللہی: برصغیر میں اسلامی بیداری۔ لاہور: ادارہ احیاء علوم اسلامی۔ صفحہ: 29–31 
  20. محمد یاسر نقوی (2010)۔ شاہ ولی اللہ اور برصغیر میں اسلامی بیداری۔ اسلام آباد: اشاعت اسلامی۔ صفحہ: 48–50