سنبھل
شہر | |
سرکاری نام | |
ملک | بھارت |
ریاست | اتر پردیش |
قائم از | Prithviraj Chauhan |
رقبہ | |
• کل | 16 کلومیٹر2 (6 میل مربع) |
بلندی | 293 میل (961 فٹ) |
آبادی (2012) | |
• کل | 8,501,50 |
• کثافت | 11,433/کلومیٹر2 (29,610/میل مربع) |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی and اردو |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC 5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 244302 |
رمز ٹیلی فون | 91 5923 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | UP 38 Old registration=UP 21 (Till 2011) |
سنبھل (انگریزی: Sambhal) بھارت کا ایک رہائشی علاقہ جو اتر پردیش میں واقع ہے۔[1]
تفصیلات
[ترمیم]سنبھل کا رقبہ 16 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 8,501,50 افراد پر مشتمل ہے اور 293 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔ درگاہ حضرت مخدوم السید جمال الدین ذیدی الواسطی رح 588ھ سرسی سادات درگاہ حضرت السید علی عرب النقوی نیشاپوری شہید632ھ علی پور درگاہ حضرت السید ذید کلاں النقوی نیشاپوری 632ھ سرسی سادات درگاہ حضرت السیدحسن عارف النقوی نیشاپوری 734ھ سرسی سادات
سنبھل ایک تاریخی مقام کے طور پر زمانہ قدیم سے ہی مشہور رہا ہے۔ یہ رام گنگا اور گنگا ندی کے درمیان 78035’Nاور 78033’E (28.58,78.53)کورڈینیٹس پر واقع ہے۔ اور تقریباً 16کلومیٹر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے وجود میں آنے کی مستند وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ہو سکی لیکن ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق یہ چاروں یُگوں میں موجود تھا۔ سنبھل دور حاضر میں روہیل کھنڈ خطہ کا ایک شہر ہے جسے برسوں تک ضلع مرادآباد کی ایک تحصیل رہنے کے بعد 28؍ستمبر 2011ء کو نئے تشکیل دیے گئے عجیب و غریب ضلع بھیم نگر کی تحصیل بنا دیا گیا۔ عجیب و غریب ضلع اس معنے میں کہ اس کے ہیڈ کوارٹر کا آج تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا ہے اور اس کی تشکیل سے سنبھل کا رتبہ پہلے سے گھٹ گیا ہے۔ پہلے یہاں اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل اور ایس۔ پی سنبھل کے دفاتر قائم تھے مگر اب اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل کی پوسٹ ختم ہو چکی ہے اور ایس۔ پی سنبھل کی جگہ اے۔ ایس۔ پی سنبھل کو تعینات کیا گیا ہے۔ تمام عارضی دفاتر سنبھل سے 22کلومیٹر فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے بہجوئی میں کھولے جا رہے ہیں ۔ محض 37؍ ہزار آبادی پر مشتمل قصبہ بہجوئی اس معنی میں خوش قسمت ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو تواسے تحصیل بنائے جانے کی بھی امید نہیں تھی ظاہر ہے انھیں بن مانگے موتی مل گئے ہیں یعنی ضلع بھیم نگر کا عارضی ہیڈ کوارٹرسنبھل کی جگہ بہجوئی بنا دیا گیا ہے۔
تاریخ
[ترمیم]سنبھل کو دہلی ترک سلطنت کے آخرسے تیموری سلطنت کے آخری دور تک (تقریباً 400 برس تک) سرکا رکا درجہ حاصل تھا سرکار سنبھل کا صدر مقام بھی سنبھل میں ہی تھا۔ اُس وقت سنبھل سرکار کو ملک کی بڑی اور مشہور سرکاروں میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ شا ہ جہاں کے دور میں رستم خاں دکنی نے سنبھل سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر مرادآباد شہر بسایا تھا۔ رستم خاں دکنی سنبھل سرکار میں گورنر تھا اور وہ 25سال تک سنبھل کا گورنر رہا۔ 20سال تو اس نے سنبھل میں گزارے لیکن آخری پانچ سال اس نے مرادآباد میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران سنبھل کی اہمیت بھی کم ہو گئی اور کچھ وقت کے بعد سنبھل سرکار کا صدر مقام سنبھل سے مرادآباد منتقل کر دیا گیا۔ پھر فرخ سیر کے دور میں سنبھل کے سرکار کے درجہ کو ختم کر کے مرادآباد کو ہی سرکار بنا دیا گیا۔
اکبر اور بیرم خاں کی عدم موجودگی میں سنبھل کے گورنر علی قلی خاں شیبانی نے پانی پت کی مشہور لڑائی میں راجا ہیمو کو شکست دی تھی۔ 1556ء میں پانی پت کی جنگ سے پہلے ہندوستان میں صرف پنجاب کے تھوڑے سے علاقے پر ہی اکبر بادشاہ کا قبضہ تھا۔ پانی پت کی جنگ میں اس وقت کے سنبھل سرکارکے گورنر علی قلی خاں شیبانی کے زیر قیادت سنبھل کی دس ہزار فوج (جس میں زیادہ تر راجپوت فوجی شامل تھے )نے بیرم خاں اور اکبر کی فوج کے ہر اول دستے کے دس ہزار سواروں کے ساتھ مل کر راجا ہیمو کی افغان فوج کوزبردست شکست دی تھی اور اس طرح اس نے ہندوستان میں تیموری حکومت کے قیام میں اہم کردار نبھایا تھا۔ اِس جنگ کے خاتمے کے بعد 14سال کے اکبر کو پہلی بار راجپوتوں اور ان کی بہادری اور وفا داری کی جانکاری ملی جس سے وہ بہت متاثر ہوا۔ آگے چل کر خود مختار بادشاہ اکبر نے راجپوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مستحکم کر لیے۔ اس سے ہندوستان میں اپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے میں اسے بہت مدد ملی۔ راجپوتوں کی وفاداری کا یقین اور بہادری کا اثر اُس پر ہمیشہ قائم رہا۔
وسطی ایشیا کے مشرقی علاقہ کاشغر میں چین کے ساتھ تصادم میں وہاں کی حکمراں جماعت کے کچھ درباری شیخ خواجہ 1760ء میں نقل مکانی کر کے شمالی ہندوستان کے کٹھیر(جسے اب روہیل کھنڈ بھی کہا جاتا ہے )کے سنبھل شہر تک آئے اور یہاں آباد ہوئے۔
مشاہیر
[ترمیم]مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]ویکی ذخائر پر سنبھل سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
|
|
|