مندرجات کا رخ کریں

سلیم بن سلطان القاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیم بن سلطان القاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1832ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شارجہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات جولا‎ئی1919ء (86–87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مسقط و عمان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر معلومات
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلیم بن سلطان القاسمی 1868ء تا 1883ء شارجہ کے حکمران تھے۔ ان کا عہد حکومت غیر معمولی طور پر ہنگامہ خیز رہا ہے اور وہ کئی سازشوں، تنازعات اور ماتحتوں کی آپسی چپلقش کا شکار ہوئے۔ وہ 1868ء تا 1869ء تک کی مختصر سی مدت کے لیے راس الخیمہ کے بھی حکمران رہے۔ وہ 1908ء تا 1919ء راس الخیمہ کے والی کا گرونر بھی رہے۔

الحاق

[ترمیم]

سلیم بن سلطان شارجہ کے سابق حکمران سلطان بن صقر القاسمی اور ان کی باندی کے بیٹے تھے۔ 1868ء میں شارجہ کے حکمران خالد بن سلطان کی وفات کے بعد وہ حکمران منتخب ہوئے اور ان کے بھانجے حمید بن عبد اللہ راس الخیمہ کے والی مقرر ہوئے۔ اگلے سال انھوں نے سلطان بن صقر سے آزادی حاصل کرلی۔[1] محافظہ البریمی کا سعودی امیر اس خطہ میں ساحلی تنازعات میں دلچسپی لیتا تھا۔ اس نے اپریل 1869ء میں شارجہ میں سیاسی اتھل پتھل شروع کر دی اور سلیم بن سلطان کو قید کر لیا۔ اس کے بھائی اور راس الخیمہ کے والی ابراہیم بن سلطان کو راس الخیمہ کا حکمران مقرر کیا اور راس الخیمہ کے حکمران حمید بن عبد اللہ کو شارجہ کا حکمران بنا دیا۔ اس طرح اس نے حکمرانی کے خاندانی تناسب کو منظم کر دیا۔ اس کے اس عمل نے پورے خطہ میں آگ بھڑکا دی اور سعودی عرب کے خلاف لوگ مشتعل ہو گئے۔ اسی کشیدگی کے ماحول میں سعودی ایجینٹ مارا گیا۔ سلیم نے ریاض کے غصہ کو کم کرنے کے لیے اپنے بھائی ابراہیم کو اپنی جگہ حکمران نامزد کیا۔ چند ماہ بعد اس نے اپنی گدی dwbaro حاصل کر ل0[2]

سمندری جنگ کی خلاف ورزی

[ترمیم]

مئی 1869ء میں سلیم اور ابراہیم نے ایک ساتھ راس الخیمہ کے حمید بن عبد اللہ پر حملہ کر دیا۔ سلیم اور ابراہیم کی فوج 1500 نفر پر مشتمل تھی جو 32 کشتیوں پر سوار تھے۔ حمید کو ام القیوین سے 500 نفر کی مدد ملی۔ دونوں کے مابین راس الخیمہ کے الجزیرہ الحمرا کے مقام پر لڑائی ہوئی۔ برطانوی صدر نے بندر لنگہ پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی خبر سنی تو راس الخیمہ دوڑا چلا آیا۔ 12 مئی کو وہ راس الخیمہ پہنچا اور اگلے ہی دن ابراہیم اور سلیم کو وہاں سے اپنی فوج نکالنے کا حکم دیا۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Frauke, Heard-Bey (2005)۔ From Trucial States to United Arab Emirates : a society in transition۔ London: Motivate۔ صفحہ: 84۔ ISBN 1-86063-167-3۔ OCLC 64689681 
  2. John Lorimer (1915)۔ Gazetteer of the Persian Gulf۔ British Government, Bombay۔ صفحہ: 759 
  3. John Lorimer (1915)۔ Gazetteer of the Persian Gulf۔ British Government, Bombay۔ صفحہ: 760