زبیر ابن عوام
زبیر ابن عوام عربی: الزبیر بن العوام | |
---|---|
الزبیر بن العوام الاسد حجی القرشی، ابو عبد الله | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 863ء مکہ |
وفات | 4 دسمبر 656ء (61–62 سال) بصرہ |
وجہ وفات | تیز دار ہتھیار کا گھاؤ |
مدفن | بصرہ |
لقب | حواری رسول الله اور اسلام کے لیے سب سے پہلے تلوار اٹھانے اولے |
زوجہ | اسماء بنت ابی بكر زینب بنت مرثد ام خالد بنت خالد بن سعید الرباب بنت انیف ام كلثوم بنت عقبہ عاتكہ بنت زید تماضر بنت الاصبغ |
اولاد | بیٹے: عبد الله، عروہ، المنذر، عاصم، المهاجر، جعفر، عبیدہ، عمرو، خالد، مصعب، حمزہ بیٹیاں: خدیجہ، ام الحسن، عائشہ، حفصہ، حبیبہ، سودہ، هند، رملہ، زینب |
والد | عوام بن خویلد |
والدہ | صفیہ بنت عبد المطلب |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | والد: العوام بن خویلد والدہ: صفیہ بنت عبد المطلب بن هاشم بھائی:السائب،عبد الرحمن،عبد الله |
عملی زندگی | |
نسب | قرشی اسدی |
فرمان نبوی | لكل نبی حواری وحواریی الزبیر - محمد رسول الله (ترجمہ: ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے) |
خصوصیت | حواری رسول، عشرہ مبشرہ |
پیشہ | سیاست دان ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
وفاداری | خلافت راشدہ |
شاخ | خلافت راشدہ کی فوج [1] |
عہدہ | کمانڈر |
لڑائیاں اور جنگیں | فتح مکہ ، جنگ جمل ، غزوہ احد ، غزوۂ بدر ، غزوہ خندق |
درستی - ترمیم |
عمر کے بعد شوریٰ کے ارکان | |
اختيار خليفہ ثالث | |
عثمان بن عفان |
زبیر بن عوام (26ق.ھ / 36ھ) نام زبیر۔ کنیت ابو عبد اللہ ، لقب حواری رسول اللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد ہجرت سے 28 سال پہلے پیدا ہوئے۔ سولہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کو ہجرت کی۔ جنگ بدر میں بڑی جانبازی سے لڑے اور دیگر غزوات میں بھی بڑی شجاعت دکھائی۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی دستے کے علمبردار تھے۔ جنگ فسطاط میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے چار افسروں کی معیت میں چار ہزار مجاہدین کی کمک مصر روانہ کی۔ ان میں ایک افسر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور اس جنگ کی فتح کا سہرا آپ کے سر ہے۔ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امام حسن رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے ساتھ شامل ہوئے۔ لیکن جلد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ایک پیشین گوئی کو یاد کرکے آپ نے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی۔ جس پر مخالفین حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ایک شخص جرموز نامی نے نماز میں آپ کو شہید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت رکھنے کے باعث بے شمار احادیث جانتے تھے۔ لیکن بہت کم بیان کر سکے۔ مروجہ کتب احادیث میں بعض احادیث آپ سے مروی ہیں۔
آپ ایک بڑے عالم، حد سے زیادہ شجاع اور دلیر، مستقل مزاج اور مساوات پسند تھے۔ تاجر ہونے کی وجہ سے کافی دولت مند تھے آپ صاحب جائداد بھی تھے۔ ایک مکان کوفہ، ایک مصر اور دو بصرہ میں اور گیارہ مکان مدینہ میں تھے۔ علاوہ ازیں زمین اور باغات تھے۔ اس کے باوجود بہت سادہ لباس پہنتے اور سادہ غذا کھاتے تھے۔ البتہ میدان جنگ میں ہمیشہ اعلی قسم اورعمدہ ریشمی لباس پہن کر جاتے۔ آپ کا شمار رسول اللہ کے ان دس صحابہ میں ہوتا ہے جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی۔[2] [3][4]
نام و نسب و خاندان
[ترمیم]زبیر نام، ابو عبد اللہ کنیت، حواری رسول اللہ ﷺ لقب، والد کا نام عوام اور والدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر ؓ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت ﷺ کے ساڑھو بھی تھے اور اس طرح ذات نبوی ﷺ کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں، لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ، بہادر، الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماانہیں مارا پیٹا کرتیں اور سخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں، ایک دفعہ نوفل بن خویلد جو اپنے بھائی عوام کے مرنے کے بعد ان کے ولی تھے، حضرت صفیہ ؓ پر نہایت خفا ہوئے کہ کیا تم اس بچے کو اس طرح مارتے مارتے مار ڈالو گی اور بنو ہاشم سے کہا کہ تم لوگ صفیہ ؓ کو سمجھاتے کیوں نہیں، حضرت صفیہ ؓ نے حسب ذیل رجز میں اس خفگی کا جواب دیا۔ [5] من قال انی ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکی یلب جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لیے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو۔ ویھزم الجیش یاتی باسلب الخ اور فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے، ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انھوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا، لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے، تو انھوں نے معذرت و عفو خواہی کی بجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر ؓ کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔ [6] [7] [8] [9][10] [11][12] [13][14][15]
اسلام
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام ؓ صرف سولہ برس کے تھے کہ نورِ ایمان نے ان کے خانۂ دل کو منور کر دیا [16]بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانچویں یا چھٹے مسلمان تھے،لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا، تاہم سابقین اسلام میں وہ ممتاز اور نمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اگرچہ کمسن تھے، لیکن استقامت اور جان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔قبول اسلام کے بعد ایک دفعہ کسی نے مشہور کر دیا کہ مشرکین نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیا ہے، یہ سن کر جذبہ جانثاری سے اس قدر بیخود ہوئے کہ اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر ؓ !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ (خدانخواستہ) حضور گرفتار کرلیے گئے ہیں، سرورکائنات ﷺ نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی،اہل سیر کا بیان ہے کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔ [17] [18] [19][20] [21][22]
ہجرت
[ترمیم]عام بلا کشانِ اسلام کی طرح زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرکین مکہ مکرمہ کے پنجہ ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا، لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اتر جاتا ،بالآخر اس نے برہم ہوکر اور بھی سختی شروع کی،یہاں تک کہ چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور اس قدر دھونی دیتا کہ دم گھٹنے لگتا ؛ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہے جاتے کچھ بھی کرو اب میں کافر نہیں ہو سکتا۔ [23] غرض مظالم وشدائد سے اس قدر تنگ آئے کہ وطن چھوڑکر حبش کی راہ لی، پھر کچھ دنوں کے بعد وہاں سے واپس آئے، تو خود سرور کائنات ﷺ نے مدینہ کا قصد کیا، اس لیے انھوں نے بھی مدینہ کی مبارک سرزمین کو وطن بنایا۔ [24] [25] [26] [27] [28]
مواخات
[ترمیم]آنحضرت ﷺ نے مکہ میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلامی بھائی قرار دیا تھا ، لیکن جب مدینہ پہنچنے کے بعد انصار و مہاجرین میں تعلقات پیدا کرنے کے لیے ایک دوسری مواخات منعقد ہوئی تو اس دفعہ حضرت سلمہ بن سلامہ انصاری ؓ سے رشتہ اخوت قائم کیا گیا، جو مدینہ کے ایک معزز بزرگ اور بیعت عقبہ میں شریک تھے۔ [29] [30]
غزوات
[ترمیم]غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے، سب سے پہلے غزوۂ بدر پیش آیا، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کر دیتے، ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گر کر حضرت زبیر ؓ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا،[31] اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنے ہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پار نکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہو گیا تھا، آنحضرت ﷺ نے بطور یادگار حضرت زبیر ؓ سے اس نیزہ کو لے لیا، اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا منتقل ہوتا رہا ، یہاں تک خلیفہ ثالث ؓ کے بعد حضرت زبیر بن عوام ؓ کے وارث عبد اللہ بن زبیر ؓ کے پاس پہنچا اور ان کی شہادت تک ان کے پاس موجود تھا۔ وہ جس بے جگری کے ساتھ غزوہ بدر میں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑ گئے تھے، تمام جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑ گیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔ [32] معرکہ بدر میں حضرت زبیر بن عوام ؓ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں،[33] غرض مسلمانوں کی شجاعت و ثابت قدمی نے میدان مار لیا حق غالب رہا اور باطل کو شکست ہوئی۔ [34] [35] [36][37] [38]
غزوۂ احد
[ترمیم]3ھ میں غزوہ احد کا واقعہ ہوا، اثنائے جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تلوار کھینچ کر فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا؟ تمام جان نثاروں نے بیتابی کے ساتھ اپنے ہاتھ پھیلائے، حضرت زبیر بن عوام ؓ نے تین دفعہ اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن یہ فخر ابودجانہ ؓ انصاری کے لیے مقدر ہو چکا تھا۔ [39] جنگ احد میں جب تیراندازوں کی بے احتیاطی سے فتح شکست سے مبدل ہو گئی اور مشرکین کے اچانک حملے سے غازیان دین کے پاؤں متزلزل ہو گئے، یہاں تک کہ شمع نبوت کے گرد صرف چودہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پروانہ وار ثابت قدم رہ گئے تھے تو اس وقت بھی یہ جان نثار حواری جان نثاری کا فرض ادا کر رہا تھا۔ [40] [41]
غزوۂ خندق
[ترمیم]5ھ میں یہودیوں کی مفسدہ پردازی سے تمام عرب مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قریب خندق کھود کر اس طوفان کا مقابلہ کیا، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس حصہ پر معمور تھے جہاں عورتیں تھیں۔ [42] بنوقریظ اور مسلمانوں میں باہم معاہدہ تھالیکن عام سیلاب میں وہ بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کے لیے کسی کو بھیجنا چاہا اور تین بار فرمایا " کون اس قوم کی خبر لائے گا؟ " حضرت زبیر بن عوام ؓ نے ہر مرتبہ بڑھ کر عرض کیا کہ "میں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا" ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں، میرا حواری زبیر ؓ ہے،[43] اس نازک وقت میں حضرت زبیر بن عوام ؓ کی اس طرح بے خطر تنہا آمدورفت سے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان کی اس جانبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ فرمایا: فداک ابی وامی، یعنی میرے ماں باپ تم پر فداہوں۔ [44] کفار بہت دنوں تک غزوہ خندق کا محاصرہ کیے رہے ، لیکن پھر کچھ تو ارضی و سماوی مصائب اور کچھ مسلمانوں کے غیر معمولی ثبات و استقلال سے پریشان ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ [45]
غزوۂ خیبر
[ترمیم]غزوۂ خندق کے بعد غزوہ بنو قریظہ اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے پھر غزوہ خیبر کی مہم میں غیر معمولی شجاعت دکھائی، مرحب یہودی خیبر کا رئیس تھا وہ مقتول ہوا تو اس کا بھائی یاسر غضبناک ہو کر "ھل من مبارز’’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیا، حضرت زبیر بن عوام ؓ نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا وہ اس قدر تنو مند اور قوی ہیکل تھا کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرا لخت جگر آج شہید ہوگا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں!زبیر ؓ اس کو مارے گا، چنانچہ درحقیقت تھوڑی دیر رد و بدل کے بعد وہ واصل جہنم ہوا۔ [46] غرض خیبر فتح ہوا اور اس کے بعد فتح مکہ کی تیاریاں شروع ہوئیں، مشہور صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے تمام کیفیت لکھ کر ایک عورت کے ہاتھ قریش مکہ کے پاس روانہ کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو گئی اور ایک جماعت اس عورت کو گرفتاری پر مامور ہوئی، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک تھے، وہ گرفتار ہوکر آئی اور خط پڑھا گیا، تو حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر ندامت سے جھک گیا ، رحمۃ للعالمین نے ان کی عفو خواہی پر جب معاف فرما دیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔" یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ" [47] [48]
فتح مکہ
[ترمیم]رمضان المبارک 8ھ میں دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کا قصد کیا اور شاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ اس سر زمین میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل طرح طرح کے مصائب و شدائد برداشت کرنے کے بعد بے بسی کی حالت میں نکلنے پر مجبور ہوئے تھے، اس عظیم الشان فوج کے متعدد دستے بنائے گئے تھے، سب سے چھوٹا اور آخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت ﷺ موجود تھے،حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس کے علمبردار تھے۔ [49] آنحضرت ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے اور ہر طرف سکون واطمینان ہو گیا تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑوں پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے آنحضرت ﷺ نے کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے گرد غبار صاف کیا اور فرمایا میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور سوار کے لیے ایک حصہ مقرر کیا ہے ، جو ان حصوں میں کمی کرے گا خدا اس کو نقصان پہنچائے گا۔ [50] [51] [52]
مختلف غزوات
[ترمیم]فتح مکہ کے بعد واپسی کے موقع پر غزوۂ حنین پیش آیا کفار کمین گاہوں میں چھپے ہوئے مسلمانوں کی نقل و حرکت دیکھ رہے تھے، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس گھاٹی کے قریب پہنچے تو ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے پکار کر کہا "لات و عزیٰ کی قسم یہ طویل القامت سوار یقینا زبیر بن عوام ؓ ہے، تیار ہو جاؤ ،اس کا حملہ نہایت خطرناک ہوتا ہے" یہ حملہ ختم ہی ہوا تھا کہ ایک زبردست جمیعت نے اچانک حملہ کر دیا، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نہایت پھرتی اور تیزدستی کے ساتھ اس آفتِ ناگہانی کو روکا اور اس قدر شجاعت و جانبازی سے لڑے کہ یہ گھاٹی کفار سے بالکل صاف ہو گئی۔ اس کے بعد جنگ طائف اور تبوک کی فوج کشی میں شریک ہوئے، پھر 5ھ ، میں رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کا قصد کیا، حضرت زبیر بن عوام ؓ اس میں بھی ہمرکاب تھے۔ حج سے واپس آنے کے بعد سرور کائنات ﷺ نے وفات پائی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے، بعض روایات کے مطابق زبیر بن عوام ؓ کو بھی خلیفہ اول کی بیعت میں پس و پیش تھا، تاہم وہ زیادہ دنوں تک اس پر قائم نہیں رہے۔ [53] [54]
جنگ یرموک کا حیرت انگیز کارنامہ
[ترمیم]سوا دو برس کی خلافت کے بعد خلیفہ اول کا وصال ہو گیا اور فاروق اعظم ؓ نے مسند حکومت پر قدم رکھا، خلیفہ اول کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، حضرت عمر فاروق ؓ نے تمام عرب میں جوش پھیلا کر اس کو اور بھی زیادہ وسیع کر دیا، حضرت زبیر بن عوام ؓ کا دل گو رسول اللہ ﷺ کی وفات سے افسردہ ہو چکا تھا،تاہم ایک مرد میدان وجانباز بہادر کے لیے اس جوش و ولولہ کے وقت عزلت نشین رہنا سخت ننگ تھا، خلیفہ وقت سے اجازت لے کر شامی رزم گاہ میں شریک ہوئے ،اس وقت یرموک کے میدان میں ملک شام کی قسمت کا آخری فیصلہ ہو رہا تھا، اثنائے جنگ میں لوگوں نے کہا اگر آپ حملہ کرکے غنیم کے قلب میں گھس جائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں ،حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم لوگ میرا ساتھ نہیں دے سکتے، لوگوں نے عہد کیا تو اس زور سے حملہ آور ہوئے کہ رومی فوج کا قلب چیرتے ہوئے تنہا اِس پار سے اُس پار نکل گئے اور کوئی رفاقت نہ کرسکا، پھر واپس لوٹے تو رومیوں نے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور نرغہ کرکے سخت زخمی کیا گردن پر دو زخم اس قدر کاری تھے کہ اچھے ہونے کے بعد بھی گڑھے باقی رہ گئے، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر کے زخم کے بعد یہ دوسرا زخم کا گڈھا تھا جس میں بچپن میں ہم انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔ [55] [56]
فسطاط کی فتح
[ترمیم]فتح شام کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سر کردگی میں مصر پر حملہ ہوا انھوں نے چھوٹے چھوٹے مقامات کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کا محاصرہ کر لیا اور قلعہ کی مضبوطی نیز فوج کی قلت دیکھ کر دربارِ خلافت سے اعانت طلب کی ، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک، ہزار ہزار سوار کے برابر ہے، افسروں میں حضرت زبیر بن عوام ؓ بھی تھے ، ان کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے حضرتعمرو بن العاص ؓ نے ان کو افسر بنایا اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیے، انھوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اور جہاں جہاں مناسب تھا مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کیے، اس کے ساتھ منجنیقوں سے پتھر برسانے شروع کر دیے، اس پر پورے سات مہینے گذر گئے اور فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں ، یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے، چند اور صحابہ ؓ نے ان کا ساتھ دیا، فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کیے، ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل اٹھی، عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے، بد حواس ہوکر بھاگے ادھر حضرت زبیر بن عوام ؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس آئی ،مقوقس حاکمِ مصر نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی اور اسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔ [57] [58][59]
اسکندریہ کی تسخیر
[ترمیم]فسطاط فتح کر کے اسلامی فوج نے اسکندریہ کا رخ کیا اور مدتوں قلعہ کا محاصرہ کیے پڑی رہی، لیکن جس قدر زیادہ دن گذرتے جاتے تھے ، اسی قدر دربار خلافت سے اس کے جلد فتح کرنے کا تقاضا بڑھتا جاتا تھا، غرض ایک روز عمرو بن العاص ؓ نے آخری اور قطعی حملہ کا ارادہ کر لیا اور حضرت زبیر بن عوام ؓ اور مسلمہ بن مخلدؓ کو فوج کا ہراول بنا کر اس زور سے یورش کی کہ ایک ہی حملہ میں شہر فتح ہو گیا۔ [60]
مفتوحہ ممالک کی تقسیم کا مطالبہ
[ترمیم]مصر کامل طور پر مسخر ہو گیا تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سپہ سالار فوج سے اراضی مفتوحہ کی تقسیم کا مطالبہ کیا اور فرمایا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کو مجاہدین پر تقسیم فرما دیا تھا، اسی طرح تمام ممالک مفتوحہ کو تقسیم کر دینا چاہیے ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں امیر المومنین ؓ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا گیا تو انھوں نے لکھا کہ اس کو اسی طرح رہنے دینا چاہیے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس سے مستفید ہوتی رہیں، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ذہن میں بھی اس کی مصلحت آگئی اور خاموش ہو رہے۔ [61]
23ھ میں خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مجوسی کے ہاتھ ناگہانی طور پر زخمی ہوکر سفرِ آخرت کی تیاری کی تو عہدہ خلافت کے لیے چھ آدمیوں کے نام پیش کیے اور فرمایا کہ حضرت سرور کائنات ﷺ آخر وقت تک ان سے راضی رہے تھے، ان چھ بزرگوں میں ایک حضرت زبیر ؓ بھی تھے، لیکن تین دن کی مسلسل گفت وشنید اور بحث ومباحثہ کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو مسند گرامی پر بٹھا دیا، حضرت زبیر بن عوام ؓ بھی بے چون و چرا اس انتخاب کو تسلیم کرکے بیعت کرلی۔ [62] خلیفۂ ثالث ؓ کے عہد میں زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت سکون و خاموشی کی زندگی بسر کی اور کسی قسم کی ملکی مہم میں شریک نہیں ہوئے، درحقیقت عمر بھی اس حد سے متجاوز ہو چکی تھی ، لیکن 35ھ میں مصری مفسدوں نے بارگاہِ خلافت کا محاصرہ کیا، تو انھوں نے اپنے بڑے صاحبزادہ عبد اللہ بن زبیر ؓ کو امیر المومنین کی مساعدت و حفاظت پر مامور کر دیا۔
غرض اٹھارہویں ذی الحجہ جمعہ کے روز حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مفسدین کے ہاتھ سے شہید ہوئے، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسب وصیت پوشیدہ طریقہ پر رات کے وقت نمازہ جنازہ ادا کی اور مضافاتِ مدینہ میں حش کوکب نامی ایک مقام پر سپرد خاک کیا۔ خلیفہ وقت کے قتل سے تمام مدینہ میں مفسدین کا رعب طاری ہو گیا، ہر شخص دم بخود تھا، حضرت عثمان بن عفان ؓ کے طرفدار اور تمام بنو امیہ مکہ مکرمہ اور دوسرے مقامات کی طرف بھاگ گئے ، چونکہ مصری علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرفدار تھے اس لیے انھوں نے اس کو خلافت کا بار گراں اٹھانے پر مجبور کیا،اور مسجد نبوی مین لوگوں کو بیعت کے لیے جمع کیا،حضرت طلحہ ؓ و زبیر ؓ گو برابر کے دعویدار تھے، تاہم مصریوں کے خوف سے زبان نہ ہلا سکے اور کسی طرح بیعت کرلی۔ [63]
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی مسند نشینی کے بعد بھی مدینہ میں امن وامان قائم نہ ہو سکا ،سبائی فرقہ جو اس انقلاب کا بانی تھا اور فتنہ و فساد کے نئے نئے کرشمے دکھاتا رہتا تھا، جاہل بدوی جو ہمیشہ ایسے لوٹ مارکے موقعوں پر شریک ہوجاتے ،سبائیوں کے ساتھ ہو گئے، حضرت علی ؓ نے کوشش کی کہ یہ لوگ اپنے اپنے وطن کی طرف لوٹ جائیں اور بدویوں کو بھی شہر سے نکال دیا جائے ؛لیکن سبائیوں کے ضد اور انکار سے کامیابی نہ ہوئی۔ [64]
حضرت زبیر بن عوام ؓ جو اساطین امت میں تھے، کب تک خاموشی کے ساتھ اس شورش و ہنگامہ آرائی کا تماشا دیکھتے،اصلاحِ حال اور رفع فساد کا انتظار کرتے کرتے کامل چار ماہ گذر گئے ،لیکن امن وسکون کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی، آخر تھک کر حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے پاس آئے اور اصلاح و اقامت حدود کا مطالبہ کیا، انھوں نے جواب دیا، بھائی! میں اس سے غافل نہیں ؛لیکن ایک ایسی قوم کے ساتھ کیا کرسکتا ہوں جس پر میرا کچھ اختیار نہیں،بلکہ وہ خود مجھ پر حکمران ہے،[65] غرض جب اس طرح سے بھی مایوسی ہوئی تو یہ دونوں خود عملاً اس شورش کو رفع کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حج کے خیال سے مکہ مکرمہ آئی تھیں اور اب تک مدینہ کی شورشوں کا حال سن کر یہیں مقیم تھیں، حضرت طلحہ ؓ و زبیر ؓ سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان لفظوں میں مدینہ کی بے امنی کا نقشہ کھینچا۔ اناتحملنا بقتینا ھرابامن المدینۃ من غبو غااعراب وفارقنا قوما حیاری لایعرفون حقار لاینکرون باطلاولایمنعون النفسھم ہم اعراب کے شوروشر کے خوف سے مدینہ سے بھاگ آئے ہیں اور اہم نے وہاں ایسی حیران قوم کو چھوڑا ہے جو نہ حق کو پہنچانتی ہے اور نہ باطل سے احتراز کرتی ہے اور نہ اپنی جانوں کی حفاظت کرتی ہے۔
ام المومنین ؓ نے فرمایا" تو پھر کوئی رائے قائم کرکے اس شورش کو فرو کرنا چاہیے" غرض تھوڑی دیر کی بحث ومباحثہ کے بعد علم اصلاح بلند کرنے پر سب کا اتفاق ہوا، بنو امیہ بھی جو مدینہ سے بھاگ کر یہاں مجتمع ہو گئے تھے، جوشِ انتقام میں ساتھ ہو گئے اور اس طرح داعیانِ اصلاح کی ایک ہزار جماعت بصرہ کی طرف روانہ ہوئی؛ تاکہ وہاں سے اپنی قوت مضبوط کرکے مدینہ کا رخ کرے راہ میں امویوں نے خلافت و امامت کی بحث چھیڑ کر حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓ کو لڑانا چاہا، لیکن ام المومنین ؓ کی مداخلت سے معاملہ ختم ہو گیا، بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان بن حنیف والی بصرہ نے مزاحمت کی؛ لیکن وہاں داعیان اصلاح کے حامیوں کی ایک بڑی جماعت بھی موجود تھی وہ خود عثمان ؓ کے ساتھیوں سے دست و گریبان ہو گئی، یہاں تک کشت وہ خون کی نوبت پہنچ گئی عثمان بن حنیف کا بیان تھا کہ جب طلحہ و زبیر حضرت علی ؓ سے بیعت کر چکے تو پھر انھیں علم مخالفت بلند کرنے کا کیا استحقاق ہے؟ ان دونوں کا یہ جواب تھا کہ ہم قہراً وجبراً شریک بیعت ہوئے اور اگر فرض کرلو کہ یہ بیعت صحیح تھی تب بھی اس سے مطالبہ اصلاح کی نفی نہیں ہوتی ،غرض معاملہ زیادہ طول کھینچا تو مصالحت کی یہ صورت قرار پائی کہ ایک شخص تحقیقات کے لیے مدینہ روانہ کیا جائے، اگر ثابت ہو کہ طلحہ و زبیر بیعت پر مجبور کیے گئے تھے تو عثمان بن حنیف مزاحمت سے باز آئیں گے، ورنہ ان دونوں کو اس جماعت سے کناہ کش ہونا پڑے گا، چنانچہ کعب ؓ اس تحقیقات پر مامور ہوئے ،انھوں نے جمعہ کے روز مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوکر حاضرین سے ببانگ بلند سوال کیا۔ یا اھل المدینۃ انی رسول اھل البصرۃ الیکم اکرہ ھؤلاء القوم ھذین الرجلین علی بیعۃ علی ام اتیاھا طالعین اے اہل مدینہ میں اہل بصرہ کا قاصد بن کر آیا ہوں کیا واقعی اس قوم نے ان دونوں کو علی ؓ کی بیعت پر مجبور کیا تھا یا وہ خوشی سے اس پر تیار ہوئے تھے؟ مجمع میں تھوڑی دیر تک سناٹا رہا؛ لیکن اسامہ بن زید ؓ سے نہ رہا گیا، بول اُٹھے خدا کی قسم ان دونوں نے سخت نا پسندید گی کے ساتھ بیعت کی تھی، اس سے ایک ہلچل پڑ گئی تمام اور سہل بن حنیف اسامہ ؓ سے الجھ پڑے،صہیب بن سنان ؓ، ابو ایوب ؓ اور عمر بن مسلمہ ؓ وغیرہ کبار صحابہ نے دیکھا کہ لوگ اسامہ ؓ کو مار ڈالیں گے تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، ہاں خدا کی قسم اسامہ ؓ نے سچ کہا، غرض اسی طرح اسامہ ؓ کی جان بچ گئی اور کعب ؓ بصرہ واپس آئے دوسری طرف حضرت علی ؓ کو ان واقعات کی اطلاع مل چکی تھی، انھوں نے عثمان بن حنیف کو لکھا کہ اولاً تویہ صحیح نہیں کہ وہ مجبور کیے گئے اور اگر مان بھی لو تو قوم وملک کی بہتری کے لیے ایسا ہونا ضروری تھا اور اگر وہ مجھے معزول کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس کوئی معقول عذر نہیں اور اگر کچھ اور مقصد ہے تو اس پر غور ہو سکتا ہے،اس خط کے بعد عثمان ؓ نے اپنی رائے بدل دی اورکعب ؓ کی تحقیقات کے باوجود اعیانِ اصلاح کی مزاحمت پر اڑے رہے۔ حضرت طلحہ و زبیر ؓ نے دیکھا کہ اب سہولت کے ساتھ یہ معاملہ طے نہ ہوگا تو ایک روز عشاء کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسجد پہنچے اور عبد الرحمن بن عتاب ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دیا ،عثمان بن حنیف نے اس کو اپنے حق میں مداخلت تصور کرکے ایرانی،زط اور سبا بچہ، کو حملہ کا حکم دے دیا، لیکن حضرت طلحہ ؓ و زبیر ؓ نے پامردی کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کو بھگا دیا، دوسری طرف چند آدمی دارالامارت میں گھس گئے اور عثمان بن حنیف کو پکڑ کر سامنے لائے، ان لوگوں نے اس بے رحمی کے ساتھ ان کو مارا تھا اور ڈاڑھی نوچی تھی کہ چہرہ پر ایک بال بھی باقی نہ تھا، حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو یہ سخت ناگوار گذرا اور حضرت عائشہ ؓ سے اس کے متعلق دریافت کیا، انھوں نے حکم دیا کہ عثمان کو چھوڑ دو، جہاں جی چاہے جائے، غرض اس طرح بصرہ پر قبضہ ہو گیا اور ایک بڑی جماعت اس مہم کاساتھ دینے پر تیار ہو گئی۔ [66] ،[67]
جنگ جمل اور حضرت زبیرؓ کی حق پسندی
[ترمیم]حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل کوفہ کو بھی خطوط لکھ کر شرکت کی ترغیب دی ؛لیکن وہاں حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہنچ کر پہلے ہی ان کو اپنا طرفدار بنا لیا اور تقریباً نو ہزار کی عظیم الشان جمعیت مقام ذی قار میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فوج سے مل کر بصرہ کی طرف بڑھی، طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھی اپنی فوج کو مرتب و منظم کر کے آگے بڑھا دیا، دسویں جمادی الآخر 36ھ جمعرات کے دن دونوں فوجوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، کیسا عبرت انگیز نظارہ تھا،چند دن بیشتر جو لوگ بھائی بھائی تھے، آج باہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر نگاہِ غیظ و غضب سے اپنے مقابل کو گھور رہے ہیں لیکن ذاتی مخاصمت وعداوت سے نہیں بلکہ حق وصداقت کے جوش میں یہی وجہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے کچھ آدمی اس طرف ہیں تو کچھ اس طرف ،چونکہ دونوں جماعتوں کے سر براہ کاروں کو اصلاح مد نظر تھی۔[68] اس لیے پہلے مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی، حضرت علی بن ابی طالب ؓ تنہا گھوڑا آگے بڑھا کر بیچ میدان میں آئے اور حضرت زبیر ؓ کو بلا کر کہا"ابو عبد اللہ! تمھیں وہ دن یاد ہے جب کہ ہم اور تم دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیے رسالت مآب ﷺ کے سامنے گذرے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم اس کو دوست رکھتے ہو؟ تم نے عرض کیا تھی ہاں یارسول اللہ ﷺ یاد کرو اس وقت تم سے حضور انور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک دن تم اسی سے ناحق لڑو گے، [69]۔زبیر بن عوام ؓ نے جواب دیا ہاں! اب مجھے بھی یاد آیا۔ حضرت علی ؓ تو صرف ایک بات یاد دلاکر پھر اپنی جگہ چلے گئے، لیکن حضرت زبیر ؓ کے قلب حق پرست میں ایک خاص سخت تلاطم برپا ہو گیا تمام عزائم اور ارادے فسخ ہو گئے، ام المومنین ؓ کے پاس آکر کہنے لگے میں برسرِ غلط تھا، علی ؓ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کا مقولہ یاد دلادیا ،حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا پھر اب کیا ارادہ ہے؟ بولے"اب میں اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
حضرت زبیر ؓ کے صاحب حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے کہا آپ لوگوں کو دو گروہوں کے درمیان پھنسا کر خود علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خوف سے بھاگنا چاہتے ہیں، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا میں قسم کھاتا ہوں کہ علی بن ابی طالب ؓ سے نہیں لڑوں گا" عبد اللہ بن زبیر ؓ نے کہا قسم کا کفارہ ممکن ہے اور اپنے غلام مکحول کو بلا کر آزاد کر دیا، لیکن حوارِی رسول ﷺ کا دل اچاٹ ہو چکا تھا، کہنے لگے جان پدر علی رضی اللہ عنہ نے ایسی بات یاد دلائی کہ تمام جوش فرو ہو گیا ، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں آؤ تم بھی میرا ساتھ دو ،حضرت عبد اللہ بن زبیر نے انکار کر دیا تو تنہا بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے؛ تاکہ وہاں سے اپنا اسباب وسامان لے کر حجاز کی طرف نکل جائیں، احنف بن قیس نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جاتے دیکھا تو کہا دیکھو یہ کسی وجہ سے واپس جا رہے ہیں،کوئی جاکر خبر لائے،
عمرو بن جرموز نے کہا میں جاتا ہوں اور ہتھیار سج کر گھوڑا دوڑاتے ہوئے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا وہ اس وقت اپنے غلاموں کو اسباب وسامان کے ساتھ روانگی کا حکم دے کر بصرہ کی آبادی سے دور نکل آئے تھے ، ابن جرموز نے قریب پہنچ کر پوچھا :
ابن جرموز: ابو عبد اللہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا؟
حضرت زبیر ؓ: سب باہم ایک دوسرے کا گلاکاٹ رہے تھے۔
ابن جرموز: آپ کہاں جا رہے ہیں۔
حضرت زبیر ؓ: میں اپنی غلطی پر متنبہ ہو گیا، اس لیے اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوکر کسی طرف نکل جانے کا قصد ہے۔
ابن جرموز نے کہا چلئے مجھے بھی اسی طرف کچھ دور تک جانا ہے، غرض دونوں ساتھ چلے،ظہر کی نماز کا وقت آیا تو زبیر ؓ نماز پڑھنے کے لیے ٹھہرے ،ابن جرموز نے کہا میں بھی شریک ہوں گا،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمھیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھو گے،اس نے کہاں ہاں اس عہد و پیمان کے بعد دونوں اپنے گھوڑے سے اترے اورمعبود حقیقی کے سامنے سرنیاز جھکانے کو کھڑے ہو گئے۔
[70]
[71]
[72] [73]
[74]
شہادت
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام ؓ جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمرو بن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اور حواری رسول ﷺ کا سر تن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس ! جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اور جس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بارہا مصائب و شدائد کے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اور پیروِ رسول ﷺ کی شقاوت اور بے رحمی کا شکار ہو گیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
ابن جرموز حضرت زبیر بن عوام ؓ کی تلوار اور زرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی ؓ میں حاضر ہوا اور فخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا ، جناب مرتضیٰ ؓ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔ [75] حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چونسٹھ برس کی عمر پائی اور 36ھ میں شہید ہوکر وادی السباع میں سپرد خاک ہوئے، فنور اللہ مرقدہ وحسن مثواہ- [76] [77]
اخلاق و عادات
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام ؓ کا دامن اخلاقی زروجواہر سے مالا مال تھا، تقوی، پارسائی، حق پسندی، بے نیازی، سخاوت اور ایثار آپ کا خاص شیوہ تھا، رقت قلب اور عبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ پر دل کانپ اٹھتا تھا۔ خشیتِ الہی جب یہ آیت نازل ہوئی"إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ،ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ " [78] تو سرورِکائنات ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا قیامت کے روز ہمارے جھگڑے پھر دہرائے جائیں گے؟ ارشاد ہوا ہاں ایک ایک ذرہ کا حساب ہوکر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے گا، یہ سن کر ان کا دل کانپ اُٹھا کہنے لگے ،اللہ اکبر ! کیسا سخت موقع ہوگا۔ [79]
تقویٰ وپرہیز گاری حضرت زبیر ؓ کی کتاب اخلاق کا سب سے روشن باب ہے، وہ خود اس کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ وہ اپنے غلام ابراہیم کی دادی ام عطاء کے پاس گئے دیکھا کہ یہاں ایام تشریق کے بعد بھی قربانی کا گوشت موجود ہے،کہنے لگے،ام عطاء رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، انھوں نے عرض کیا کہ میں کیا کروں لوگوں نے اس قدر ہدیے بھیج دیے کہ ختم ہی نہیں ہوتے ۔ [80]
حضرت زبیر بن عوام ؓ نے جب دعوتِ اصلاح کا علم بلند کیا تو ایک شخص نے آکر کہا اگر حکم دیجئے تو علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن اڑادوں" بولے تم تنہا اس عظیم الشان فوج کا کیسے مقابلہ کرو گے؟ اس نے کہا میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج میں جاکر مل جاؤں گا اور کسی وقت موقع پاکر دھوکے سے قتل کر ڈالوں گا، فرمایا نہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے، اس لیے کوئی مومن کسی کو اچانک نہ مارے۔ [81]
قلتِ روایت کا سبب
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام ؓ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حواری اور ہر وقت کے حاضر رہنے والوں میں تھے، لیکن کمال اتقاء کے باعث بہت کم حدیثیں روایت کرتے تھے ،ایک دفعہ آپ کے صاحبزادہ حضرت عبد اللہ ؓ نے کہا، پدر بزرگوار کیا سبب ہے کہ آپ حضور ﷺ کی اتنی باتیں بیان نہیں کرتے جتنی اور لوگ بیان کرتے ہیں، فرمایا جان پدر! حضور ﷺ کی رفاقت اور معیت میں دوسروں سے میرا حصہ کم نہیں ہے، میں جب سے اسلام لایا، رسول اللہ ﷺ سے جدا نہیں ہوا،لیکن حضور ﷺ کی صرف اس تنبیہ نے مجھے محتاط بنادیا ہے: من کذب علی متعمدا فلیبتوا مقعدہ من النار یعنی جس نے قصدا میری طرف غلط بات منسوب کی اسے چاہیے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے۔ [82] [83]
مساوات پسندی
[ترمیم]مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دو مسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کے ماموں حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ بنت عبد المطلب ؓ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دیے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اور دوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا، اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔ [84]
استقلال
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام ؓ خطرات کی مطلق پروا نہ کرتے اور موت کا خوف کبھی ان کے عزم و ارادہ میں حائل نہ ہوتا، اسکندریہ کے محاصرہ نے طول کھینچا تو چاہا کہ سیڑھی لگا کر قلعہ پر چڑھ جائیں، لوگوں نے کہا قلعہ میں سخت طاعون ہے، فرمایا"ہم طعن وطاعون ہی کے لیے آئے ہیں"یعنی موت سے ڈرنا کیا ہے غرض سیڑھیاں لگائی گئیں اور جان بازی کے ساتھ چڑھ گئے۔
امانت
[ترمیم]حواریِ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امانت ، دیانت اور انتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا، یہاں تک کہ لوگ عموماً اپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل و اولاد اور مال و متاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے، مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انھوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگے" میں آپ کو خدا، رسول ﷺ اور قرابت داری کا واسطہ دلاتا ہوں، میں نے فاروق اعظم ؓ کو کہتے سنا ہے کہ زبیر ؓ دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان بن عفان ؓ، مقداد ، عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبدالرحمان بن عوف ؓ وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل و عیال پر صرف کرتے تھے۔ [85]
فیاضی
[ترمیم]فیاضی،سخاوت اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر ؓ کے پاس ایک ہزار غلام تھے، روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انھوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کر دیا،[86]غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہو سکتی ہیں،حضرت زبیر ؓ کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔
ذریعہ ٔمعاش اور تمول
[ترمیم]معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا اور عجیب بات ہے کہ انھوں نے جس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔ [87] تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدر رق حاصل کی،حضرت زبیر بن عوام ؓ کے تمول کا صرف اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم (یا دینار)کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اور مصر و کوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔ [88]
قرض اور اس کی ادائیگی
[ترمیم]حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر تمول کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عموما اپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے، لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں ؛ بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں، ہوتے ہوتے اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہو گئے۔ [89]
حضرت زبیر ؓ جب جنگ جمل کے لیے تیارہوئے تو انھوں نے اپنے صاحبزادہ عبد اللہ ؓ سے کہا" جان پدر مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرض کا ہے، اس لیے میرا مال و متاع بیچ کر سب سے پہلے قرض ادا کرنا اور جو کچھ بچ رہے اس میں سے ایک ثلث خاص تمھارے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہوں ،ہاں اگر مال کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا ،حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے پوچھا"آپ کا مولیٰ کون ہے؟ میرا مولیٰ خدا ہے جس نے ہر مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔" عبد اللہ بن زبیر ؓ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ جھاڑی بیچ کر قرض ادا کرنے کا سامان کیا اور چار برس تک موسم حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر ؓ پر جس کا قرض ہو آکر لے لے،غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس قدر رقم بچ رہی کہ صرف حضرت زبیر ؓ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا، موصی لہ اور دوسرے ورثہ کے علاوہ تھے۔ [90]
جاگیر و زراعت
[ترمیم]فتح خیبر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم فرما دیا تھا ، چنانچہ حضرت زبیر ؓ کو بھی اس میں سے ایک وسیع اور سر سبز قطعہ ملا تھا، اس کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں بھی ان کے کھیت تھے، جن کو وہ خود آباد کرتے تھے، کبھی کبھی آب پاشی وغیرہ کے متعلق دوسرے شرکاء سے جھگڑا بھی ہو جاتا تھا، ایک دفعہ ایک انصاری سے جن کا کھیت حضرت زبیر ؓ کے کھیت سے ملا ہوا نیچے کی طرف تھا، آب پاشی کے متعلق جھگڑا ہوا، انصار ی ؓ نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دیا کرو، انصاری اس فیصلہ سے ناراض ہوئے اور کہنے لگے"یارسول اللہ! آپ نے اپنے پھوپھی زادہ کی پاسداری فرمائی،چونکہ انصاری کو اس آب پاشی سے متمتع ہونے کا کوئی حق نہ تھا اور رسول اللہ ﷺ نے محض ان کی رعایت سے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا،اس لیے چہرہ سرخ ہو گیا اور حضرت زبیر ؓ کو حکم دیا کہ تم اپنے پورے حق سے فائدہ اٹھاؤ،یعنی خود آب پاشی کرکے پانی کو روک رکھو یہاں تک کہ نالیوں کے ذریعہ سے دوسری طرف بہ جائے۔ کھیت کی نگرانی اورفصل کی حفاظت کا فرض بسااوقات خود ہی انجام دیتے تھے،ایک دفعہ عہد فاروقی ؓ میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اور حضرت مقداد بن الاسود ؓ کے ساتھ اپنی جاگیر کی دیکھ بھال کے لیے خیبر تشریف لے گئے اور رات کے وقت تک تینوں علاحدہ اپنی اپنی جاگیر کے قریب سوئے رات کی تاریکی میں کسی یہودی نے شرارت سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی کلائی اس زور سے موڑدی کہ بے اختیار ہو کر چلا اُٹھے ،حضرت زبیر ؓ وغیرہ مدد کے لیے دوڑے اور واقعہ دریافت کرکے ان کو لیے ہوئے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور یہودیوں کی شرارت کا حال بیان کیا،چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعہ کے بعد یہودیوں کو خیبر سے جلاوطن کر دیا۔ [91] حضرت ابوبکر ؓ نے بھی مقام جرف میں انھیں ایک جاگیر مرحمت فرمائی تھی، اسی طرح حضرت عمر ؓ نے مقام عقیق کی زمین انھیں دے دی تھی،[92] جو مدینہ کے اطراف میں ایک خوش فضا میدان ہے۔ [93].[94]
آل و اولاد سے محبت
[ترمیم]حضرت زبیرؓ کو بیوی بچوں سے نہایت محبت تھی، خصوصاً حضرت عبد اللہ ؓ اور ان کے بچوں کو بہت مانتے تھے،چنانچہ اپنے مال میں سے ایک ثلث کی خاص ان کے بچوں کے لیے وصیت کی تھی،لڑکوں کی تربیت کو بھی خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے، جنگ یرموک میں شریک ہوئے تو اپنے صاحبزادہ عبد اللہ بن زبیر ؓ کو بھی ساتھ لے گئے ، اس وقت ان کی عمر صرف دس سال کی تھی، لیکن حضرت زبیر ؓ نے ان کو گھوڑے پر سوار کرکے ایک آدمی کے سپرد کر دیا کہ جنگ کے ہولناک مناظر دکھا کر جرات و بہادری کا سبق دے۔ [95] [96]
غذا و لباس
[ترمیم]دولت و ثروت کے باوجود طرز معاشرت نہایت سادہ تھا،غذا بھی پر تکلف نہ تھی ،لباس عموماً معمولی اور سادہ زیب بدن فرماتے ،البتہ جنگ میں ریشمی کپڑے استعمال کرتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پران کو اجازت دی تھی،آلاتِ حرب کا نہایت شوق تھا اور اس میں تکلف جائز سمجھتے تھے، چنانچہ ان کی تلوار کا قبضہ نقرئی تھا۔ [97]
حلیہ
[ترمیم]بدن چھریرا ، قد بلند و بالا، خصوصا پاؤں اس قدر لمبے کہ گھوڑے پر چڑہتے تو پاؤں زمین سے چھو جاتا، رنگ گندم گوں اور سر پر کندھوں تک بالوں کی لٹیں۔ [98]
اولاد و ازواج
[ترمیم]حضرت زبیر ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور کثرت کے ساتھ اولاد پیدا ہوئی، بعض بچے تو ان کی حیات ہی میں قضا کر گئے؛ تاہم پھر بھی بہت سی اولاد یادگار رہ گئی۔[99] ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اسماء بنت ابی بکر ؓ
[ترمیم]ان کے بطن سے چھ بچے ہوئے،نام یہ ہیں: عبد اللہ، عروہ، منذر(عمرو کے والد )، خدیجۃ الکبری، ام الحسن عائشہ۔ ام خالد بنت خالد بن سعید انھوں نے خالد، عمر، حبیبہ ،سودہ اور ہند یاد گار چھوڑی۔
رباب بنت انیف
[ترمیم]ان سے مصعب، حمزہ اور رملہ پیدا ہوئیں۔
زینب بنت بشر
[ترمیم]ان کے بطن سے عبیدہ،جعفر اور حفصہ پیدا ہوئیں۔
ام کلثوم بنت عقبہ
[ترمیم]ان سے صرف ایک لڑکی زینب پیدا ہوئی۔ [100][101] [102][103]
حدیث میں ذکر
[ترمیم]ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[104]
حوالہ جات
[ترمیم]
- ↑ Beirut Arab University's Libraries title ID: http://librarycatalog.bau.edu.lb/cgi-bin/koha/opac-detail.pl?biblionumber=https://id.loc.gov/authorities/names/n83178209.html
- ↑ كتاب سير أعلام النبلاء، لشمس الدين الذهبي، جـ3، صـ364: 380، ترجمة عبد الله بن الزبير آرکائیو شدہ 2017-06-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أسماء بنت أبي بكر، ذات النطاقين، موقع قصة الإسلام، تاريخ الولوج 10 يونيو 2016 آرکائیو شدہ 2016-11-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الزبير بن العوام، موقع قصة الإسلام، اطلع عليه في 12 يوليو 2016 آرکائیو شدہ 2016-11-26 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (ابن سعد اصابہ تذکرہ زبیر ؓ)
- ↑ (اصابہ جلد 1 تذکرہ زبیر ؓ)
- ↑ جمهرة أنساب العرب، لابن حزم، جـ1، صـ54 آرکائیو شدہ 2016-06-25 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة، ترجمة السائب بن العوامعلى موقع نداء الإيمان، تاريخ الولوج 13 يونيو 2016 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-eman.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ معرفة الصحابة، حرف السين، السائب بن العوام آرکائیو شدہ 2015-12-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة عبد الرحمن بن الزبير، على موقع نداء الإيمان، تاريخ الولوج 13 يونيو 2016 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-eman.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ الطبقات الكبرى - محمد بن سعد - ج ٨ - الصفحة ٤١. آرکائیو شدہ 2020-02-04 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الطبقات الكبرى - محمد بن سعد - ج ٨ - الصفحة ٤١.
- ↑ علموا أولادكم محبة آل بيت النبي (ص) - الدكتور محمد عبده يماني - الصفحة ٢٤١. آرکائیو شدہ 2020-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ المستدرك - الحاكم النيسابوري - ج ٤ - الصفحة ٥٠. آرکائیو شدہ 2020-01-06 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مستدرک حاکم:3/359)
- ↑ (اسد الغابہ تذکرہ زبیر بن عوام ؓ)
- ↑ سير أعلام النبلاء، لشمس الدين الذهبي جـ1، صـ41: 67، ترجمة الزبير بن العوام آرکائیو شدہ 2017-11-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ دلائل النبوة للبيهقي، رقم الحديث: 498 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑
- ↑
- ↑ كتاب: موسوعة فقه الابتلاء، علي بن نايف الشحود، جـ 4، صـ 336 آرکائیو شدہ 2016-08-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (اصابہ جلد 1 تذکرہ زبیر ؓ)
- ↑ المستدرك على الصحيحين (4301) آرکائیو شدہ 2017-10-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ كتاب تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي الله عنه - شخصيته وعصره، صـ 20 آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 229 آرکائیو شدہ 2019-02-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ البداية والنهاية لابن كثير - أحداث سنة 1 هـ - فصل في ميلاد عبد الله بن الزبير آرکائیو شدہ 2017-07-29 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ صحيح البخاري - حديث رقم:5152 آرکائیو شدہ 2017-07-29 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 225 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 226 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (کنزالعمال:6/416)
- ↑ (بخاری باب غزوۂ بدر)
- ↑ (کنز العمال :6/416)
- ↑ الرحيق المختوم، لصفي الرحمن المباركفوري، جـ 1، صـ 169 آرکائیو شدہ 2016-08-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ صحيح البخاري، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب شُهُودِ الْمَلَائِكَةِ بَدْرًا، حديث رقم 3723 آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ فضائل الصحابة - محمد حسن عبد الغفار، جـ 10، صـ 4 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ صحيح البخاري، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ، رقم الحديث: 3702 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الزاي، ذكر من اسمه زبير، الزبير بْن العوام بْن خويلد، رقم الحديث: 16914 آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (زرقانی :2/132)
- ↑ ( ایضاً)
- ↑ السيرة النبوية لابن هشام، غزوة أحد، مقتل أبي عزة ومعاوية بن المغيرة آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند:1/164)
- ↑ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خندق)
- ↑ (مسند : ا/164)
- ↑ مغازي الواقدي، الواقدي، جـ 2، صـ 457 آرکائیو شدہ 2016-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (سیرت ابن ہشام :2/182)
- ↑ (الممتحنۃ:1)
- ↑ البداية والنهاية جـ4، باب: سنة سبع من الهجرة غزوة خيبر في أولها ـ على ويكي مصدر
- ↑ (بخاری باب غزوۃ الفتح )
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ 73)
- ↑ صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أهل بدر رضي الله عنهم وقصة حاطب بن أبي بلتعة، حديث رقم 2494 آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، حديث رقم 1780 آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب أين ركز النبي صلى الله عليه وسلم الراية يوم الفتح، حديث رقم 4030 آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 227 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (بخاری کتاب الغازی)
- ↑ البداية والنهاية، ابن كثير الدمشقي، الجزء السابع، فصل: وقعة اليرموك على ويكي مصدر
- ↑ (فتوح البلدان: 220)
- ↑ البلاذريّ، أحمد بن يحيى بن جابر بن داود (1988م)۔ فُتوح البُلدان، الجزء الأوَّل۔ بيروت - لُبنان: دار ومكتبة الهلال۔ صفحہ: 314
- ↑ الكِندي، أبو عُمر مُحمَّد بن يُوسُف بن يعقوب المصري، تحقيق: مُحمَّد حسن مُحمَّد حسن إسماعيل، وأحمد فريد المزيدي (1424 هـ - 2003م)۔ كتاب الوُلاة والقُضاة (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت - لُبنان: دار الكُتب العلميَّة۔ صفحہ: 8
- ↑ صحيح البخاري، كِتَاب الْأَحْكَامِ، بَاب كَيْفَ يُبَايِعُ الْإِمَامُ النَّاسَ، رقم الحديث: 6694 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند ابن حنبل:1/166)
- ↑ (بخاری کتاب المناقب قصۃ البیعۃ)
- ↑ (تاریخ طبری : 3077)
- ↑ (تاریخ طبری: 3081)
- ↑ (تاریخ طبری:3080)
- ↑ تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي الله عنه - شخصيته وعصره، جـ1، صـ 64 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب قصة البيعة، والاتفاق على عثمان بن عفان وفيه مقتل عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، حديث رقم 3700 آرکائیو شدہ 2018-01-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ تاريخ الأمم والملوك لابن جرير الطبري، جـ 2، صـ 703 آرکائیو شدہ 2017-05-07 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مستدرک حاکم:3/366)
- ↑ تاريخ الأمم والملوك لابن جرير الطبري، جـ 3، صـ 13: 19 آرکائیو شدہ 2017-05-07 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ حقيقة الخلاف بين الصحابة في معركتي الجمل وصفين وقضية التحكيم، لعلي محمد الصلابي، موسسة اقرأ للنشر والتوزيع والترجمة، الطبعة الأولى، فصل: مقتل حكيم بن جبلة، صـ 62: 63
- ↑ حقيقة الخلاف بين الصحابة في معركتي الجمل وصفين وقضية التحكيم، لعلي محمد الصلابي، موسسة اقرأ للنشر والتوزيع والترجمة، الطبعة الأولى، صـ 71: 90
- ↑ تاريخ الأمم والملوك لابن جرير الطبري، جـ 3، صـ 32 آرکائیو شدہ 2016-03-04 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ البداية والنهاية لابن كثير جـ 7، صـ 250، الموسوعة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-08-17 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند جلد1 صفحہ 89)
- ↑ سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني، جـ 1، صـ 231 آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ صحيح البخاري، كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ، بَاب بَرَكَةِ الْغَازِي فِي مَالِهِ حَيًا وَمَيِّتًا، رقم الحديث: 2913 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (الزمر:30،31)
- ↑ (ایضا:1/167)
- ↑ (ایضاً جلد 1 صفحہ 166)
- ↑ (مسند:1 / 166)
- ↑ (ابوداؤد کتاب العلم باب فی التشدید فی الکذب علی رسول اللہ ﷺ ومسند :1/165،وصحیح بخاری : 1/21)
- ↑ تاريخ دمشق، لابن عساكر، جـ 18، صـ 334 آرکائیو شدہ 2016-08-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند:1/165)
- ↑ (اصابہ :3/6)
- ↑ (ایضاً جلد 2 صفحہ6)
- ↑ (استیعاب :1/208)
- ↑ (بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی مالہ)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ)
- ↑ (ابن ہشام:2/201)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جلد 3 صفحہ 173)
- ↑ سير أعلام النبلاء، لشمس الدين الذهبي، ترجمة المنذر بن الزبير، جـ 3، صـ 381 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ البداية والنهاية، لابن كثير الدمشقي، الجزء الثامن، المنذر بن الزبير بن العوام على ويكي مصدر
- ↑ الإصابة في تمييز الصحابة جـ8،ص 56 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ المجموع اللفيف، لأبي جعفر الأفطسي، جـ 1، صـ 521، الحاشية آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الغيرة، حيث رقم 4926 آرکائیو شدہ 2017-07-29 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير أعلام النبلاء، لشمس الدين الزهبي، ترجمة عروة بن الزبير، جـ 4، صـ 423: 437 آرکائیو شدہ 2019-03-11 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ تاريخ دمشق لابن عساكر، أسماء النساء عَلَى حرف الراء، رَمْلَةُ بِنْتُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ آرکائیو شدہ 2016-08-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ معجم النساء الشاعرات في الجاهلية والإسلام. آرکائیو شدہ 2020-09-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الإصابة - ابن حجر - ج 8 - الصفحة 162. آرکائیو شدہ 2020-09-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑
- ↑ التاريخ الإسلامي - ج 4: العهد الأموي، للشيخ محمود شاكر، الطبعة السابعة، 1421 هـ/ 2000 م، صـ 137: 139 آرکائیو شدہ 2016-08-10 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713
- 863ء کی پیدائشیں
- مکہ میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 656ء کی وفیات
- 4 دسمبر کی وفیات
- بصرہ میں وفات پانے والی شخصیات
- صحابہ
- اصحاب احد
- اسلامی فتح مصر
- اصحاب بدر
- اصحاب بیعت الرضوان
- اصحاب خندق
- اہل سنت کے محبوب صحابہ
- پہلا فتنہ
- پہلے فتنے کی شخصیات
- ساتویں صدی کی عرب شخصیات
- شہداء صحابہ
- مسلم تاریخی شخصیات
- مسلم مذہبی شخصیات
- مہاجرین حبشہ
- نو مسلمین
- صحابی راویان حدیث
- عرب جرنیل
- قریش
- محدثین
- فارس کی اسلامی فتوحات کی شخصیات
- خلافت راشدہ کے سپاہ سالار
- قرون وسطی کے مسلمان سپاہ سالار
- خلافت راشدہ کی شخصیات
- عرب بازنطینی جنگوں کی عرب شخصیات
- فقہاء صحابہ