مندرجات کا رخ کریں

رویفع بن ثابت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت رویفع بن ثابت ؓ
معلومات شخصیت
وفات سنہ 675ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برقہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن البیضاء   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ثابت بن سکن
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

[ترمیم]

رویفع نام، قبیلہ خزرج نجار سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ، غزوہ حنین میں شریک تھے۔ [1] آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد مصر کی سکونت اختیار کی اور وہاں ایک مکان بنالیا۔

صدارت طرابلس

[ترمیم]

46ھ میں امیر معاویہؓ نے ان کو طرابلس کا حاکم بناکر مغرب بھیجا ،برقہ صدر مقام تھا، اسی میں قیام پزیر ہوئے۔ [2] ایک سال کے بعد 47ھ میں حضرت مسلمہ بن ؓ مخلد والی مصر وطرابلس نے افریقیہ (تونس ،الجزائر ومراکش) پر فوج کشی کی رویفع کو اس مہم پر مامور کیا، انھوں نے بہت سی فتوحات کیں اور موجود جغرافیہ کی رو سے حدود ٹیونس کے اندر پہنچ کر قابس کے قریب جربہ نام، ایک مقام فتح کیا اور تقریر کی جس میں لونڈیوں،مال غنیمت ،سواری اور دیگر ضروری باتوں کے متعلق ہدایت تھی، [3] اسی سال کے اندر سالماً وغانماًدار الحکومت میں واپس آئے۔ [4] حضرت مسلمہؓ نے خراج کا محکمہ ان کے سپرد کرنا چاہا،لیکن انھوں نے اس بنا پر انکار کیا کہ آنحضرتﷺ فرماچکے تھے کہ حاکم خراج جنت میں داخل نہ ہوگا۔ [5] تقریبا 10 برس تک اپنا فرض منصبی انجام دیتے رہے۔

وفات

[ترمیم]

56 ھ میں پیغام اجل پہنچا برقہ میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ [6]

فضل وکمال

[ترمیم]

ان کے سلسلۂ سے 9 روایتیں مروی ہیں،بیان حدیث میں محتاط تھے ایک مرتبہ مجمع عام میں ایک حدیث بیان کی تو فرمایا: ایھا الناس! انی لا اقول فیکم الاماسمعت رسول اللہ ﷺ یقول لوگو! تم کو وہی باتیں بتاتا ہوں جن کو آنحضرتﷺ نے ہم کو سنایا تھا۔ راویوں میں حنش صنعانی، وفاء بن شریح، شییم بن بیتان ،شیبان القتبانی،ابوالخیر مرثد بشیر بن عبیداللہ حضرمی،ابو مرزوق وغیرہ تھے ،جو ان کے ساتھ برقہ اورجنگ افریقیہ میں شریک رہے تھے۔

اخلاق

[ترمیم]

صحبت رسولﷺ کا اثر ہر جگہ نمایاں رہتا تھا،غزوہ مغرب میں متعدد مقامات پر خطبے دینے کا اتفاق ہوا، ان میں کتاب وسنت کی تمام لوگوں کو دعوت دی ،اوامرونواہی کے امتثال واجتناب کا خاص اہتمام رہتا تھا کہ حاکم اسلام کے لیے یہ سب سے ضروری فریضہ ہے ،اجتناب عن المنہیات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محض تہدیدی حدیث کی بدولت صاحب خراج کی خدمت قبول نہ فرمائی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (مسند بن حنبل:4/108)
  2. (استیعاب:1/141)
  3. (مسند:4/108)
  4. (استیعاب:1/181)
  5. (مسند:4/109)
  6. (اسد الغابہ:2/191)