ذو نواس
ذو نواس | |
---|---|
(عربی میں: ذو نواس) | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | جنوری530ء |
شہریت | مملکت حمیر |
مذہب | یہودیت |
عملی زندگی | |
پیشہ | حاکم |
درستی - ترمیم |
ذو نواس یا یوسف بن شراحبیل ایک ایسا ظالم بادشاہ تھا جس نے بہت سے اہل ایمان (عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے سچے مسیحی) کو قتل کیا۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی سورہ بروج میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ذو نواس یہودی تھا اور اس کا تعلق یمن کے ایک قبیلے حمیر سے تھا۔
پیدائش
[ترمیم]ذو نواس کی پیدائش ٠٥٤ء چار سو پچاس عیسوی میں ہوئی
یمن اور ذو نواس
[ترمیم]یمن کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل اور عرصۂ دراز پر محیط ہے اور جب جب اس کے زوال کی داستان کا تذکرہ ہوتا ہے تو لا محالہ ذو نواس کا نام بھی آ جاتا ہے کیونکہ یہی ذو نواس وہ ظالم بادشاہ تھا جس کے ظلم و ستم کے بعد آنے والے زوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ذو نواس، یمن کی تہذیب و ثقافت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
ذو نواس اور یثرب
[ترمیم]یثرب یعنی مدینۃ النبی کی تاریخ میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ملتا ہے جس نے یمن سے آ کر یثرب (مدینہ) پر حملہ کیا تھا لیکن اسے کسی یہودی عالم نے یہ بتایا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں آخری نبی ہجرت کر کے تشریف لائیں گے۔ چنانچہ وہ بادشاہ حملہ کرنے سے باز رہا۔ اس کا نام تبان اسعد ابو کرب یا شراحبیل تھا۔ اس نے یہودی عالموں سے متاثر ہو کر یہودیت کو قبول کر لیا اور یمن واپس جا کر یہودیت کی تبلیغ کی۔ تبان اسعد ابو کرب کے بعد اس کا بیٹا ذو نواس تخت نشیں ہوا۔
ظلم و ستم کی داستان
[ترمیم]ذو نواس فطرتاً ظالم تھا۔ اس نے نجران پر حملہ کیا جو عیسائیت کا گڑھ تھا۔ اس کے ظلم و ستم کے متعلق بہت سے واقعات ملتے ہیں جس میں ایک اس طرح ہے کہ ذو نواس کے دربار میں ایک جادوگر رہتا تھا جب اس کی زندگی کا آخری وقت آیا تو اس نے بادشاہ (ذو نواس) سے عرض کیا کہ اسے ایک ایسا بچہ دیا جائے جسے وہ اپنا شاگرد بنا کر جادو سکھائے چنانچہ بادشاہ نے ایک ایسے بچے کا انتظام کر دیا۔ اب ایک بچہ روزانہ آتا اور جادو سیکھتا پھر گھر چلا جاتا۔ اس بچے کے راستے میں ایک نیک راہب رہتا تھا جس سے اس بچے کی ملاقات ہوئی اور وہ بچہ اس راہب سے متاثر ہو گیا اور الله پر ایمان لے آیا۔ اب وہ جب بھی اس راستے سے جاتا اس راہب سے ملتا اور اس کی باتیں سنتا جس کی وجہ سے دیر بھی ہو جاتی اور جادوگر سے مار کھاتا اور گھر پر بھی سختی ہوتی۔ اس کی شکایت اس بچے نے راہب سے کی تو اس کا راستہ یہ نکلا کہ جب گھر والے پوچھتے تو کہا جاتا کہ جادو سیکھنے میں دیر ہو جاتی ہے اور جب جادوگر پوچھتا تو کہا جاتا کہ گھر میں دیر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک عرصہ گذر گیا پھر ایک دن اس کے ایمان کی اطلاع بادشاہ کے دربار تک پہنچی اور اس نے اسے سزائے موت دی لیکن کسی بھی تدبیر سے اس کی جان نہ لے سکا چنانچہ اس نے بادشاہ کو ایک ترکیب بتائی کہ ایک مجمع میں اسے درخت پر لٹکا کر اس بچے کے رب کے نام کے ساتھ اس کی کنپٹی پر تیر چلایا جائے تو وہ قتل ہو سکتا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن جب لوگوں نے یہ معاملہ دیکھا تو سارے لوگ اس بچے کے رب پر ایمان لے آئے اور بادشاہ کے مصاحبوں نے کہا کہ یہ تدبیر تو الٹی ہو گئی۔ اسے ہم سمجھ ہی نہیں سکے اور جس خطرے کے ڈر سے ہم نے اس بچے کو قتل کیا آخر وہی ہوا یعنی لوگ آپ کو چھوڑ کر الله پر ایمان لے آئے۔ چنانچہ بادشاہ کو یہ ناکامی برداشت نہ ہوئی اور اس نے ہر ایمان والے کو آگ کے ایک گڑھے میں ڈال کر زندہ جلا دیا۔
ستمگر کا انجام
[ترمیم]ذو نواس کے اس ظلم کا انتقام لینے کے ایک عیسائی بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ جس سے جنگ میں ذو نواس کو شکست ہوئی اور وہ فرار ہو کر ایک دریا میں ڈوب مرا۔
وفات
[ترمیم]اس کی وفات پانچ سو تیئیس عیسوی ٣٢٥ء میں دریا میں ڈوب کر ہوئی۔
مزید دیکھے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ خلاصہ تفسیر، تفہیم القرآن، سورہ بروج، پارہ تیس۔