حافظ محمد ضامن
حافظ محمد ضامن | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1809ء مظفر نگر |
وفات | 14 ستمبر 1857ء (47–48 سال) شاملی ، مظفر نگر |
عملی زندگی | |
استاذ | میاں جی نور محمد جھجھانوی |
پیشہ | عالم |
درستی - ترمیم |
حافظ محمد ضامن شہید (1809ء — 14 ستمبر 1857ء) تحریک آزادی ہند کے نامور عالم، فقیہ اور عالم اہل سنت تھے۔حافظ محمد ضامن کا ذکر دارالعلوم دیوبند اور اُس کے متعلقین میں تواتر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہم عصر اور رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ عموماً حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حافظ محمد ضامن اور شیخ محمد تھانوی مسجد پیر محمد میں مقیم رہتے تھے۔
حلیہ
[ترمیم]آپ کا رنگ گورا سفید تھا اور چیچک کے کچھ داغ چہرے پر نمایاں تھے لیکن زیادہ واضح نہیں ہوتے تھے۔ قد درمیانہ درجے کا اور نہایت متناسب، خوبصورت اور چہرے سے رعب نمایاں معلوم ہوتا تھا۔ آنکھوں میں سرخی چمکتی تھی اور سینے پر سیاہ بال تھے۔ بھنویں آپس میں ملی ہوئی نہ تھیں، بلکہ کشادہ تھیں۔ سر کے بال منڈے ہوئے رہتے تھے۔ گردن بلند تھی۔ چہرے پر تبسم رہتا اور بے تکلف سیدھے سادھے بزرگانہ اور ظریفانہ لہجے والی طبیعت کے مالک تھے۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
[ترمیم]پیدائش غالباً 1225ھ سے 1230ھ کے مابین کسی سال میں مظفر نگر میں ہوئی۔[1] حافظ ضامن کی تعلیم و تربیت اُس زمانے کے مطابق ابتدا میں معمولی رہی حالانکہ آپ مستند تعلیم یافتہ نہ تھے۔ تھانہ بھون میں آپ کے زمانے کے جس مستند عالم کا اشارہ ملتا ہے، وہ مولانا شیخ محمد تھانوی تھے۔ البتہ آپ حافظ قرآن ضرور تھے۔ اُس زمانے میں چونکہ لوگوں میں روحانیت کا شغل خوب تھا، اِسی لیے حافظ صاحب نے بھی میاں جی نور محمد جھجھانوی سے بیعت کرلی۔ عبادت و ریاضت کی جانب مشغول ہو گئے اور اِس میں درجہ کمال کو پہنچے۔ تصوف اور سلوک کے معاملات کو خوب سمجھتے تھے۔ اُس دور کے لوگ اِن کے فن تصوف میں آگاہی اور خاص و عالم دریافتِ حال و مقام میں حیران ہوتے تھے۔[2]
اتباع شریعت اور زُہد و تقویٰ
[ترمیم]حافظ محمد ضامن شہید اتباع سنت اور استیصالِ بدعت میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔ اتباع شریعت میں یہ کچھ ودیعت تھا کہ ادنیٰ سی بدعت کو جڑ سے اُکھاڑ دِیا کرتے تھے اور خود مسئلہ مختلف فیہا میں احتیاط پر عمل فرمایا کرتے تھے اور اَوامر و نَواہی میں شانِ فاروقیت کا سا عروج ہوتا تھا۔ زُہد و تقویٰ پر ایسی کمر چست باندھ رکھی تھی کہ جان تک سے دریغ نہ کیا۔[3]
شہادت
[ترمیم]1857ء میں جب ہندوستان میں جنگِ آزادی کا ولولہ مسلمانوں میں آگ کی طرح پھیل گیا تو مظفر نگر اور سہارن پور بھی اِس کی لپیٹ میں آگئے تو حافظ صاحب اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کس طرح خاموش بیٹھ سکتے تھے۔ فقہی طور پر مولانا محمد قاسم ناناتوی نے مسئلہ کی صورت حال اور فرضیتِ جہاد طے کردی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو امیر جہاد تسلیم کر لیا گیا ۔ شاملی، ضلع مظفر نگر میں تحصیل کی حکومت کا خزانہ تھا اور یہیں توپ خانہ اور اسلحہ بھی موجود تھا۔ اِس لیے اِن حضرات نے یہیں جہاد کیا اور انگریزی فوجوں سے سخت لڑائی میں کئی گھنٹے میدان کارزار گرم رہا اور بالآخر 14 ستمبر 1857ء کو حافظ صاحب کی ناف کے نیچے گولی لگ گئی جس سے وہ شہید ہو گئے۔شہادت کے وقت عمر 45 سال سے زائد نہ تھی۔ مظفر نگر میں ہی تدفین کی گئی۔[4]