برٹش نیشنل پارٹی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ (اکتوبر 2012) |
چیئرمین | Adam Walker |
---|---|
بانی | John Tyndall |
تاسیس | 7 اپریل 1982 |
صدر دفتر | PO Box 213 Wigton Cumbria CA7 7AL[1] |
اخبار | Identity |
یوتھ ونگ | BNP Youth |
رکنیت | 500[2] (estimate, 2015) |
نظریات | |
سیاسی حیثیت | Far-right[14][15] |
یورپی اشتراک | Alliance of European National Movements[16] |
ویب سائٹ | |
bnp |
برٹش نیشنل پارٹی یا بی این پی BNP کسی بھی قوم پرست جماعت کی طرح برطانیہ کی ایک قوم پرست اور نسل پرست جماعت ہے جو ساٹھ کی دہائی میں نیشنل فرنٹ کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ نیشنل فرنٹ کے اراکین سکن ہیڈ یعنی گنجے سر بڑے بوٹوں اور مخصوص لباس کے ساتھ پہنچانے جاتے تھے۔ اس تنظیم کا سب بڑا نعرہ غیر ملکیوں کو باہر نکالو اور “برطانیہ سفید فام لوگوں کا ملک ہے “ تھا۔ حالیہ نسل پرست جماعت 1982 میں بی این پی کے نام سے قائم ہوئی اور نئے انداز سے سامنے آئی ہے۔ اس تنظیم نے اپنے نام میں تبدیلی کے ساتھ کام کے انداز میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اب اس کے اراکین ٹائی کوٹ پہن کر اور بظاہر مہذبانہ لباس کے ساتھ اپنا پیغام پھیلا رہے ہیں۔ امریکا میں نو ستمبر دوہزار ایک کے واقعات کے بعد اس تنظیم کو نئی زندگی مل گئی اور اس نے برطانیہ میں قیام پزیر دیگر مذاہب کے لوگوں کی بجائے صرف مسلمانوں کو اپنا ہدف بنالیا۔ یہ تنظیم اپنے اشتہارات میں مسلم مخالف جذبات ابھارنے کے لیے کئی مرتبہ پاکستان کی امریکا اور جنگ مخالف مظاہروں کی تصاویر کو برطانیہ میں ہونے والے مظاہروں کا نام دیتی رہی ہے۔ حالیہ یورپی پارلیمان کے انتخابات میں بھی اس تنظیم نے امریکی فوجی کو برطانوی ظاہر کرکے اس کا بیان لکھا ہے برطانیہ کے فوجیوں کو محفوظ رکھا جائے۔ ایک پولش مزدور کو برطانوی ظاہر کرکے اس سے منسوب بیان میں لکھا گیا کہ برطانوی ملازمتیں صرف برطانوی لوگوں کو ملنے چاہئیں۔ اسی طرح ایک اسپین کے ڈاکٹر کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا کہ بطور برطانوی ڈاکٹر میں جانتا ہوں کہ غیر ملکیوں کے باعث ہسپتال اور صحت کے ادارے تباہ ہو رہے ہیں ان کو روکا جائے۔
دوہزار پانج کے مقامی انتخابات تک اس جماعت کی کسی بھی کونسل میں نمائندگی نہیں تھی مگر دوہزار پانج میں تنظیم نے لندن اور بریڈفورڈ میں نصف درجن سے کم نشستں حاصل کیں۔ 2009 کے یورپی انتخابات میں اس جماعت نے برطانیہ بھر سے تقریبا نو فیصد ووٹ حاصل کیے اور یارکشائر اینڈ ہمبر نامی حلقہ سے پہلی نشست حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی روز بی این پی کے سربراہ نک گریفن نے بھی نارتھ ویسٹ کے حلقہ سے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اپنی کامیابی کے پہلے ہی روز اس نے مسلمانوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے الزام عاید کیا کہ بریڈفورڈ میں امیگریشن نہیں بلکہ نوآبادی ہو رہی ہے۔
بی این پی نے ابتدا میں تمام غیر سفیدفام اور برطانوی افراد سے تعصب کا رویہ روا رکھا مگر بعد ازاں اس نے ہندو، سکھ اور یہودی مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مہم بندکردی بلکہ ان مزاہب کے انتہا پسند افراد سے روابط قائم کرلئے اور مسلمانوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قائم کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک صحافی نے تنظیم کے ارکان کا روپ دھار کر اس تنطیم کے سربراہ کی ایک خفیہ فلم بھی بنائی تھی جس میں نک گریفن کویہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ بریڈفورڈ کی مساجد کو تباہ کردوں۔ اسی فلم میں ایک ممبر بتاتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک مسلمان دکان دار کی دکان میں کتے کی غلاظت پھیکی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس جماعت کو دانستہ طور پر خفیہ ہاتھوں نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو دبانے کے لیے قائم کیا ہے اور اس کی خفیہ سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔ ان افراد کا خیال ہے کہ اگر اس جن کو قابو نہ کیا گیا تو یہ بوتل سے باہر آکر برطانوی معاشرے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "View registration: British National Party"۔ The Electoral Commission
- ↑ Doug Bolton (15 اپریل 2015)۔ "General Election 2015: The BNP has almost vanished from British politics"۔ The Independent۔ 17 اپریل 2015 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2015
- ↑
- ↑ Nigel Copsey (2007)۔ "Changing course or changing clothes? Reflections on the ideological evolution of the British National Party 1999–2006"۔ Patterns of Prejudice۔ ج 41 شمارہ 1: 61–82۔ DOI:10.1080/00313220601118777۔ ISSN:0031-322X۔ S2CID:145737620
- ↑ (Copsey 2004)
- ↑ (Wood اور Finlay 2008)
- ↑ Alastair Bonnett (1998)۔ "How the British Working Class Became White: The Symbolic (Re)formation of Racialized Capitalism"۔ Journal of Historical Sociology۔ ج 11 شمارہ 3: 316۔ DOI:10.1111/1467-6443.00066
- ↑ Les Back؛ Michael Keith؛ Azra Khan؛ Kalbir Shukra؛ John Solomos (2002)۔ "New Labour's White Heart: Politics, Multiculturalism and the Return of Assimilation"۔ The Political Quarterly۔ ج 73 شمارہ 4: 445۔ DOI:10.1111/1467-923X.00499
- ↑ Phyllis B. Gerstenfeld؛ Diana R. Grant؛ Chau-Pu Chiang (2003)۔ "Hate Online: A Content Analysis of Extremist Internet Sites"۔ Analyses of Social Issues and Public Policy۔ ج 3: 29۔ DOI:10.1111/j.1530-2415.2003.00013.x
- ^ ا ب M. Golder (2003)۔ "Explaining Variation in the Success of Extreme Right Parties in Western Europe"۔ Comparative Political Studies۔ ج 36 شمارہ 4: 432۔ DOI:10.1177/0010414003251176۔ S2CID:55841713
- ↑ Jocelyn A. J. Evans (اپریل 2005)۔ "The dynamics of social change in radical right-wing populist party support"۔ Comparative European Politics۔ ج 3 شمارہ 1: 76–101۔ CiteSeerX:10.1.1.199.7394۔ DOI:10.1057/palgrave.cep.6110050۔ S2CID:7805751
- ↑ Goodwin 2011، صفحہ 7
- ↑ Szczerbiak اور Taggart 2008، صفحہ 102; Woodbridge 2011، صفحہ 107.
- ↑ Driver 2011، صفحہ 132; Bottom اور Copus 2011، صفحہ 146; Copsey 2011، صفحہ 1; Messina 2011، صفحہ 165; Trilling 2012، صفحہ 5.
- ↑ Copsey 2008، صفحہ 1; Copsey 2011، صفحہ 1; Goodwin 2011، صفحہ xii.
- ↑ Goodwin 2011، صفحہ 88
- بلا حوالہ مضامین از اکتوبر 2012
- 1982ء میں قائم ہونے والی سیاسی جماعتیں
- برطانوی قوم پرستی
- برطانیہ کی جماعتیں
- قوم پرست جماعتیں
- مملکت متحدہ میں 1982ء کی تاسیسات
- مملکت متحدہ میں اسلام مخالفت
- مملکت متحدہ میں تکذیب مرگ انبوہ
- مملکت متحدہ میں سفید فام قوم پرستی
- مملکت متحدہ میں ضد سامیت
- مملکت متحدہ میں قوم پرست جماعتیں
- ایل جی بی ٹی حقوق مخالف تنظیمیں