اڑھائی دن کا جھونپڑا
اڑھائی دن کا جھونپڑا | |
---|---|
مسجد کی دیواریں | |
بنیادی معلومات | |
متناسقات | 26°27′18″N 74°37′31″E / 26.455071°N 74.6252024°E |
مذہبی انتساب | اسلام |
بلدیہ | اجمیر |
ریاست | راجستان |
ملک | بھارت |
تعمیراتی تفصیلات | |
معمار | ابو بکر ہرات |
طرز تعمیر | شروعاتی انڈو اسلامک فن تعمیر |
سنگ بنیاد | 1192 |
سنہ تکمیل | 1199 |
اڑھائی دن کا جھونپڑا بھارتی ریاست راجستان کے اجمیر شہر میں ایک بہت بڑی اور وسیع مسجد ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے اور اجمیر میں باقی رہ جانے والی قدیم ترین یادگار ہے۔ اڑھائی دن کا جھونپڑا ہندوستانی ریاست راجستان کے اجمیر شہر میں ایک بہت بڑی اور تاریخی مسجد ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے اور اجمیر میں باقی رہ جانے والی قدیم ترین یادگار ہے۔
1192ء میں محمد غوری کے حکم سے قطب الدین ایبک نے اس مسجد کی تعمیر شروع کروائی جو 1199ء میں مکمل ہوئی اور 1213ء میں دہلی کے سلطان التمش نے اس میں مزید تزئین کاری کی۔
یہ شروعاتی دور کے ہند اسلامی فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے اسے ابو بکر ہرات نے تزئین کیا تھا۔
اس مسجد کو 1947ء تک مسجد کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد اس مسجد کو اے ایس آئی (ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے) جے پور دائرہ میں دے دیا گیا تھا اور آج آثار قدیمہ کے طور پر تمام مذاہب کے لوگ اس کا دورہ کرتے ہیں۔
لفظی معنی
[ترمیم]اڑھائی دن کا جھونپڑا "کے لفظی معنی ہیں" دو دن اور آدھے دن کا جھونپڑا"۔ اس کے متبادل ناموں میں ڈھائی دن کاجھونپڑا یا جھونپڑی یا اڑھائی دن کی مسجد بھی شامل ہے۔
نام کی وجہ تسمیہ
[ترمیم]کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا ایک حصہ ڈھائی دن میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کچھ صوفیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نام زمین پر انسان کی عارضی زندگی کی نشان دہی کرتا ہے(بحوالہ کے.ڈی. اے. خان کا مضمون "اجمیر کا ڈھائی دن کا جھونپڑا‛‛)۔ اے ایس آئی کے مطابق یہ نام شاید یہاں پر ڈھائی دن تک لگنے والے میلے سے آیا ہے جو اس جگہ پر لگایا جاتا تھا(بحوالہ آرکیلوجیکل سروے آف انڈیا جے پور حلقہ).
ہندوستانی تعلیم کے ماہر جسٹس ہر بلاس شاردا کے مطابق کسی بھی تاریخی ماخذ میں "اڑھائی دن کا جھونپڑا" نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اٹھارویں صدی سے پہلے اس مسجد کو صرف "مسجد" کے نام سے جانا جاتا تھا ، چونکہ یہ صدیوں سے اجمیر کی قدیم مسجد تھی۔ یہ ایک جھونپڑا ("شیڈ" یا "جھونپڑی") کے نام سے اس وقت سے جانا جانے لگا جب فقیروں نے اپنے رہنما پنجابہ شاہ کے عرس منانے کے لیے یہاں جمع ہونا شروع کیا۔ یہ مراٹھا عہد کے دوران اٹھارہ ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ہوا تھا۔ عرس ڈھائی دن تک جاری رہی جس کے نتیجے میں اس مسجد کا نیا نام اڑھائی دن کا جھونپڑا پڑا۔
برطانوی فوجی انجینئر الیگزنڈر کننگھم جنھوں نے بعد میں تاریخ اور آثار قدیمہ میں بڑی دلچسپی لی اور برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کے آثار قدیمہ کے آفیسر بھی رہے نے اس عمارت کو "اجمیر کی عظیم مسجد" کے طور پر بیان کیا۔