انس بن نضر
انس بن نضر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مدینہ منورہ |
مقام وفات | مدینہ منورہ |
بہن/بھائی | |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد |
درستی - ترمیم |
انس بن نضر رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ ثانیہ میں مشرف باسلام ہوئے۔ اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔
نام و نسب
[ترمیم]انس نام، خاندان نجار سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے انس بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام، انس بن مالک کے چچا ہیں، سلمیٰ بنت عمرو جو عبد المطلب (جدرسولﷺ) کی والدہ تھیں اسی خاندان سے تھیں اور رشتہ میں انس بن نضر کی پھوپھی ہوتی تھیں، انس اپنے خاندان کے رئیس تھے۔
غزوہ بدر میں عدم شرکت
[ترمیم]کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اس غیر حاضری پر انھیں بڑا ملال رہتا تھا۔ فرمایا کرتے تھے: یہ حق و باطل کے درمیان میں پہلا معرکہ تھا جس میں جناب رسول اللہ نے شرکت فرمائی اور میں اس سعادت سے محروم رہ گیا، اگر اللہ تعالیٰ نے پھر ایسا موقع عنایت فرمایا تو اللہ دیکھے گا کہ دین حق کو سر بلند کرنے کے لیے میں کیا کارنامے سر انجام دیتا ہوں۔
غزوہ احد
[ترمیم]غزوہ احد میں بڑے ہی ذوق وشوق سے شریک ہوئے، اس جنگ میں اچانک ایسا سانحہ رونما ہوا کہ مسلمانوںمیں بھگدڑ مچ گئی۔ آپ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا ’’الہٰی جو کچھ مسلمانوں سے سرزد ہوا میں اس کے لیے معافی کا طلبگار ہوں اورجو کچھ مشرکین نے کیا ہے اس سے میں لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔ان کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں چند صحابہ کرام مایوسی کے عالم میں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے پوچھا کہ اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟ بڑی بے بسی سے کہنے لگے، حضور شہید ہو گئے ہیں، اب ہم کیا کریں۔ آپ نے ان کو جھڑکتے ہوئے کہا: حضور کے بعد زندہ رہ کر تم کیا کرو گے، اٹھو اوراس مقصد کے لیے اپنی جان قربان کردو جس مقصد کے لیے ہمارے آقا نے جان دی ہے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے، جبل احد کے پاس حضرت سعد بن معاذ سے ملاقات ہو گئی، انھوںنے کہا: انس میں تمھارے ساتھ ہوں، حضرت انس کفارکی صفوں میں گھس گئے، باربار کہہ رہے تھے ’’واہ !واہ! مجھے جنت کی خوشبو آرہی ہے، نضر کی پروردگار کی قسم! میں جبل احد کی طرف سے جنت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں‘‘۔ بڑی جرأت سے مصروف پیکار رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا،
مثلہ
[ترمیم]انس بن مالک کہتے ہیں کہ نیزوں، تیروں اور تلواروں کے اسی سے زیادہ زخم ان کے جسم پر لگے ہوئے تھے۔ مشرکین نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس بے دردی سے ان کی لاش کا مثلہ(کان ناک کاٹ ڈالنے کو مثلہ کہتے ہیں) کر دیا کہ وہ پہچانی نہیں جاتی تھی۔ ان کی ہمشیرہ ربیع نے ایک انگلی کے پورے یا ایک تل کے نشان سے ان کو بمشکل پہچانا۔[1]
اخلاق
[ترمیم]جوش ایمان کا شاہد خود ان کی شہادت کا واقعہ ہے، غزوہ ٔاحد کے متعلق جو آیتیں نازل ہوئیں ان میں حضرت انسؓ جیسے بزرگوں کی نہایت مدح کی گئی ہے، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے چچا(انسؓ بن نضر) کے متعلق نازل ہوئی: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ [2]یعنی مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے وعدہ میں بالکل سچے ہیں ان میں سے بعض اپنی قرارداد کو انجام تک پہنچا چکے ہیں اوربعض وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک بار ان کی بہن ربیع بنت نضر کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ قصاص میں ان کا دانت توڑ دیا جائے توانس بن نضر نے کہا: یارسول اللہ! خدا کی قسم ربیع کا دانت نہ توڑا جائیگا، انھوںنے اللہ پر اعتماد کرکے قسم کھائی تھی۔ حالات ایسے ہوئے کہ دوسرا فریق دیت لینے سے راضی ہو گیا اور ربیع قصاص سے بچ گئیں‘ اس پر حضور نے ارشاد فرمایا: خدا کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ جب قسم کھاتے ہیں تو خدا ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ [3]