اسرائیلی یہود
יהודים ישראלים | |
---|---|
کل آبادی | |
بنیادی یہودی آبادی: 6,556,000 74.6% of the اسرائیلی آبادی توسیع شدہ یہودی آبادی (بشمول یہودیوں کے غیر یہودی رشتہ دار): 6,705,000 اسرائیلی آبادی کا 79.3% | |
گنجان آبادی والے علاقے | |
اسرائیل | 6,300,000 (ستمبر 2015) |
ریاستہائے متحدہ | 500,000 |
روس | 100,000 ( ماسکو میں 80,000) |
کینیڈا | 10,755–30,000 |
مملکت متحدہ | ≈30,000 |
آسٹریلیا | 15,000 |
جرمنی | ≈10,000 |
زبانیں | |
تاریخی عبرانی، یہودی زبان یدیش زبان، لاڈینو، یہودی عربی اور دیگر یہودی زبانیں عبادتی زبانیں جدید عبرانی، انگریزی زبان، روسی زبان، ہسپانوی زبان، عربی زبان، فرانسیسی زبان، امہری زبان | |
متعلقہ نسلی گروہ | |
اشکنازی یہود · سفاردی یہودی · مزراحی یہودی، دیگر سامی قوم (شامی عربی، آشوری قوم) اور دوسری یہودی نسلی گروہ |
اسرائیلی یہود (انگریزی: Israeli Jews، عبرانی: יהודים ישראלים) کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو یہودیت پر ایمان لاتے ہوں اور ان کے پاس ریاست اسرائیل کی شہریت ہو اور وہ اسرائیلی یہودی مہاجرین کی اولاد میں سے ہو۔ اسرائیلی زیادہ تر اسرائیل اور مغربی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دیگر ممالک میں بھی آباد ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف یہودی علاقوں میں ہی پناہ گزین ہوں۔ زیادہ تر اسرائیلی یہود عبرانی زبان بولتے ہیں۔ اور ان میں اکثر کچھ نہ کچھ یہودی مذہبی تعلیمات کی پاسداری کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں دنیا میں یہود کی آبادی نصف حصہ ریاست اسرائیل میں آباد ہے۔ اسرائیل میں کی تعریف میں یہود کے تمام فرقے شامل ہیں۔ جیسے اشکنازی یہود، سفاردی یہودی، مزراحی یہودی، [[بيتا ] اسرائیل]]، کوچین یہود، بنے اسرائیل، قرائی یہود اور ان کے علاوہ بہت سارے یہودی فرقے ہیں جو اسرائیل میں آباد ہیں۔ کثیر تعداد میں فرقوں کا وجود اسرائیل میں وسیع یہودی ثقافت اور تہذیب کا ذمہ دار ہے اور بہت سارے مذہبی رسومات اور عبادات احاطہ کرتے ہیں۔ حریدی یہودیت سے لے کر سیکیولر یہودیت سب کے سب یہودی ثقافت کے احاطے میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ یہودی آبادی میں تقریباً 25 فیصد اسکولی بچے اور 35 فیصد سے زیادہ نومولود سفاردی یہودی اور مزراحی یہودی کی مخلوط اولادیں ہیں اور ان کی تعداد ہر سال 0۔5 فیصد کی در سے بڑھ رہی ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ یہودی آبادی آیا نصف سفاردی ہے یا نصف مزارحی۔[1] باوجود یہ کہ اسرائیلی یہود کے درمیان میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ یہودی کون ہے؟، اسرائیل میں یہود ہونا قومی شعار مانا جاتا ہے اور اسرائیلی انتظامیہ اس کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔ ایک مکمل یہود ہونے کے سارے معیار جنہیں یہودی کون ہے؟ کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور اسرائیلی وزارت داخلہ اس فردکو بطور یہود رجسٹر کرتی ہے جو اس معیار پر پورا اترا ہو۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2017ء تک اسرائیل میں یہودیوں کی آبادی تقریباً 6,556,000 ہے۔ ( کل آبادی کا 74.6 فیصد، اگر مشرگی یروشلم اور گولان عرب کی آبادی بھٰ شامل کی جائے)۔[2][3] اسرائیلی ادارہ جمہوریت کی 2008ء کی رپورٹ کے مطابق 47 فیصد آبادی خود کو پہلے ایک یہودی کے طور پر تسلیم کرتی ہے پھر ایک اسرائیلی کے طور پر۔ صرف 39 فیصد آبادی خود کو پہلے اسرائیلی مانتی ہے۔ [4]
تاریخ
[ترمیم]آغاز سخن
[ترمیم]یہود شروع سے ہی ارض اسرائیل کو اپنا مادر وطن تسلیم کرتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب کہ وہ منتشر تھے۔ اسرائیل کو اپنا گھر مانتے تھے۔ تنک کی تعلیمات کے مطابق یہود کا اسرائیل سے ناتا اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب خدا نے حضرت ابراہیم کو سرزمین کنعان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ابراہیم کنعان میں آباد ہو گئے جہاں ان کے فرزند ارجمند حضرت اسحاق اور پوتے حضرت یعقوب کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کا خاندان آباد ہوا۔ بعد ازاں یعقوب اپنی اولاد کے ساتھ مصر کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ صدیوں بعد ان کی نسل حضرت موسی اور حضرت ہارون کے ساتھ مصر سے نکل گئی، خدا نے موسی کو الواح عطا کی تھیں۔ اور وہ یعقوب کی اولاد کو اپنے آبائی وطن کنعان لے آئے۔ انھوں نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میںکنعان کو فتح کیا۔اسرائیلی قضاۃ کے دور میں اسرائیلیوں کے پاس کوئی منظم حکمران نہیں تھا۔ پھر اس دور کے بعد مملکت اسرائیل کو قائم کیا گیا اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر عمل میں آئی۔ جلد ہی یہ بادشاہت دو حصوں مملکت یہوداہ اور مملکت اسرائیل میں منقسم ہو گئی۔ ان بادشاہتوں کی تباہی کے بعد 597 قبل مسیح میں محاصرہ یروشلم پیش آیا اور اسرائیلوں کو اسیری بابلکی طرف دھکیل دیا گیا۔ 70 برسوں کے بعد کچھ اسرائیلیوں کو علاقے میں آنے کی اجازت ملی اور پھر ہیکل دوم تعمیر کیا گیا۔ پھر انھوں نے حشمونی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 63 قبل مسیح میں رومی سلطنت نے حشمونی سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ دوسری صدی کے دوران میں رومی سلطنت کے خلاف بغاوتی سلسلہ کا آغاز ہوا اور نتیجتا ہیکل دوم کی مسماری ہوئی اور یہودیوں کا دیس نکالا ہوا۔
7 ویں صدی میں اسلام کا عروج ہو ا اور بازنطینی سلطنت کی فوج نے اس علاقے کو شام کی اسلامی فتح جنگ میں فتح کر کے مسلم خلافت میں ملا لیا۔ صدیاں بیت گئیں اور علاقے میں یہودی آبادی گھٹتی بڑھتی رہی۔ 1880ء میں جدید صہیونیت سے قبل، 19 ویں صدی ڪے اوائل میں 1000 یہودی جدید اسرائیل میں آباد تھے۔
یہودی ایک زمانہ تک راندہ درگاں رہے، پھر 19 ویں صدی صہیونیت کے عروج کا پیغام لے کر آئی۔ قومی یہودی تحریک آغاز ہوا جس کا مقصد فلسطین میں یہودی ریادت قائم کر کے یہودیت اور صہیونیت کو دنیا میں ایک پہچان دینا تھا۔ 1880ء سے لے کر اب تک ایک کثیر تعداد نے فلسطین کی طرف ہجرت کی ہے۔ 1933ء میں نازیت کی آمد تک صہیونیت ایک اقلیتی تحریک تھی۔ نازیوں نے یہودیوں کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور انھوں نے مرگ انبوہ میں یورپ کے کئی علاقے فتح کر لیے تھے۔ [5] 19 ویں صدی کے اواخر میں یہودی کی ایک کثیر تعداد اولا عثمانی فلسطین پھر انتداب فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگی۔ سنہ 1917ء مٰں برطانیہ نے اعلان بالفور کے ذریعے تعہدی فلسطین میں اسرائیل کا گھر تسلیم کر لیا۔ اس علاقے میں یہودی آبادی 1922ء میں 11 فیصد سے بڑھ کر 1922ء میں 30 فیصد ہو گئی۔ [6]
سنہ 1973ء میں عرب بغاوت کے بعد پلی کمیشن نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جسے عرب رہنماؤں نے مسترد کر دیا۔ لیکن صہیونی رہنما داؤد بن غوریان نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نتیجہ کے طور پر چونکہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو عرب دنیا کے مدد کی ضرورت تھی لہذا عرب کے دباو میں آکر یہود کے قومی مادر وطن کا سپنا ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ اور تقسیم 1939 کے سفید دستاویز کی گفتگو کو ملتوی کر دیا کہ عرب لیگ کی رضامندی کے بعد پر سے غور کیا جائے گا۔ اس سے یہودی ہجرت پر پابندی لگ گئی۔اس کی دوسری پالیسی میں ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جہاں یہود اور عرب ایک ساتھ مل کر جکومت کریں۔ یہود نے اس پالیسی کو اپنی ہزیمت گردانا کیونکہ یہودی یجرت پر پابندی لگ چکی تھی جب کہ عرب ہجرت پر کوئی پابندی نہ تھی۔ 1947ء میں جب کشیدگی بڑھنے لگی تو برطانیہ نے تعہدی فلسطین سے برطرف ہونے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کا منصوبہ تقسیم-1947 کی رو سے دو ریاست کا فیصلہ آیا۔ ایک یہودی اور دوسری عرب۔ تعہدی فلسطین کا تقریباً 56 فیصد رقبہ یہود ی ریاست کو دے دیا گیا۔اقوام میحدہ کی جنرل اسبملی نے اس فیصلہ کو تسلیم کیا اور ادھر عرب رہنماؤں نے اسے سرے سے خارج کر دیا اور گوریلا جنگ شروع کردی۔
تعہدی فلسطین کے خاتمے سے ایک دن قبل، 14 مئی 1948ء کو وزیر اعظم داوید بن گوریون کی قیادت میں یہودی رہنماؤں نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلامنکر دیا اور ساتھ ہی یہ اسرائیل کی آزادی کا بھی اعلان تھا۔ حالانکہ اس وقت سرحدوں کا کوئی تعین نہیں ہوا تھا۔ [7]
عرب اسرائیلی جنگ 1948
[ترمیم]اردن، سوریہ، لبنان، مصر اور عراق کی افواج نے عرب ریاست کے تقسیم زدہ علاقے پر حملہ کر دیا اور اس طرح 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ حال ہی میں وجود میں آئی اسرائیلی دفاعی افواج نے عرب اقوام کے چھکے چھڑادئے اور اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کے ذریعے متعین کی گئی خطوں سے بھی آگے بڑھا دیا۔ [8] دسمبر 1948ء تک اسرائیل نے تعہدی فلسطین کے زیادہ تر حصہ پر دریائے اردن کے مغربی علاقے تک قبضہ کر لیا۔ باقی علاقوں میں مغربی کنارہ (اردنی حکومت) اور غزہ پٹی (مصر حکومت) رہ گئے تھے۔ اس جنگ کے دوران میں اور اس سے قبل ہی 711,000[9] فلسطینی عرب اپنی سرزمین چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوسرے ملکوں میں فلسطینی پناہ گزین بن گئے۔
زیادہ تر اسرائیلی 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کو جنگ آزادی مانتے ہیں جبکہ فلسطینی عرب اسے نکبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ [10] 1947ء میں جب کشیدگی بڑھنے لگی تو برطانیہ نے تعہدی فلسطین سے برطرف ہونے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کا منصوبہ تقسیم-1947 کی رو سے دو ریاست کا فیصلہ آیا۔ ایک یہودی اور دوسری عرب۔ تعہدی فلسطین کا تقریباً 56 فیصد رقبہ یہود ی ریاست کو دے دیا گیا۔اقوام میحدہ کی جنرل اسبملی نے اس فیصلہ کو تسلیم کیا اور ادھر عرب رہنماؤں نے اسے سرے سے خارج کر دیا اور گوریلا جنگ شروع کردی۔
تعہدی فلسطین کے خاتمے سے ایک دن قبل، 14 مئی 1948ء کو وزیر اعظم داوید بن گوریون کی قیادت میں یہودی رہنماؤں نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلامنکر دیا اور ساتھ ہی یہ اسرائیل کی آزادی کا بھی اعلان تھا۔ حالانکہ اس وقت سرحدوں کا کوئی تعین نہیں ہوا تھا۔ [7]
1948 تا حال
[ترمیم]مرگ انبوہ کے بچنے والوں اور عرب ممالک سے یہودی پناہ گزینوں وجہ سے اسرائیل کی آزادی کے بعد ایک سال کی مدت میں ہی کی اسرائیل کی آبادی دوگنی ہو گئی۔ 850,000 سے زیادہ سفاردی یہودی اور مزراحی یہودی پڑوسی عرب ممالک سے یا تو بھاگ کر آگئے یا بھگا دیے گئے۔ اور کچھ قلیل تعداد انغانستان، بھارت، ترکی اور ایران سے بھی آ بسی۔ ان میں 680,000 لوگ اسرائیل میں آباد ہو گئے۔
(مزید دیکھیں مسلم اور عرب ممالک سے یہودیوں کا اخراج)
کچھ برسوں تک اسرائیل کی یہودی آبادی برق رفتاری سے ترقی کررہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عالیہ (دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کی ہجرت) تھی۔ ان میں بھی سوریت یہودی قابل ذکر ہیں جو سوویت کے زوال کے بعد 1990ء میں اسرائیل کی طرف ہجرت کر گئے اور پہنچتے ہی ان کو اسرائیل کی شہریت دے دی گئی۔ صرف سال 1990–1991 میں ہی 380,000 یہودیوں کی آمد ہوئی۔ عین اسی وقت 1980 سے اس وقت تک تقریباً 80,000–100,000 ایتھوپیائی یہود اسرائیل میں آباد ہوئے۔
1948ء کے بعد اسرائیل متعدد فوجی لڑائیوں میں مشغول رہا ہے۔ جن میں سوئز بحران، 1967 6 روزہ جنگ، 1973 جنگ یوم کپور، 1982ء کی جنگ لبنان اور 2006ء لبنان جنگ شامل ہیں، ان کے علاوہ کچھ چھوٹی جنگوں کے سلسلے بھی ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اسرائیلی مقبوضہ علاقے میں اسرائیل-فلسطینی جاری تنازعات بھی مسلسل جاری ہے۔ یہ علاقے چھ دن کی جنگ کے بعد سے ہی اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ حالانکہ 13 ستمبر 1993ء کو اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے، اسرائیل اور فلسطین کی کوششیں بھی ہوئیں اور ساتھ ہی بین القوامی امن کے پیامبروں نے بھی خوب کوششیں کیں اگر اسرائیل فلسطینی تنازعات ختم ہوتے نظر نہیں اتے۔
آبادی
[ترمیم]مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل کے مطابق فرورہ 2013ء تک اسرائیل کی 8 ملین آبادی میں 75.4 ( کسی بھی نسل کے ) یہود ہیں۔ [11] ان میں 68 فیصد صبرا یعنی اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اسرائیل کی دوسری یا تیسری نسل ہے۔ باقی مہاجرین ہیں۔ جن میں 22 فیصد یورپ اور امریکن ممالک سے اور 10 فیصد ایشیا اور افریقا ( ابشمول عرب ) سے، ہیں۔ [12] تقریباً نصف آبادی عالیہ کے دوران یورپ سے آئے مہاجرین کی نسل ہے۔ اتنی ہی تعداد میں عالیہ کے دوران میں عرب، ایران، ترکی اور وسطی ایشیا سے آئے یہود کی اولادیں ہیں۔ تقریباً 200000 یہودی یا ان کی نسل ایتھوپیا اور بھارت (بھارت میں یہودیت) کے مہاجرین ہیں۔ [13]
ترقی
[ترمیم]اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک جہاں یہودیوں کی آبادی فطری طور پر بڑھ رہی ہے بر خلاف دیگر ممالک کے کہ وہاں آیا آبادی گھٹ رہی ہے یا جوں کی توں ہے۔ راسخ العقیدہ یہودیت اور حریدی یہودیت اس سے مستثنی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اب بھی ضبط تولید ایک ناپسندیدہ فعل ہے لہذا ان کی آبادی میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ [14] Haredi women have 7.7 children on average while the average Israeli Jewish woman has over 3 children.[15] 1948ء میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکا اور سوویت اتحاد کے بعد یہودی آبادی کا تیسرا سب سے بڑا ملک تھا۔ 1970ء میں سوویت اتحاد کو پیچھے چھوڑ کر یہودی آبادی والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ [16] 2003ء میں مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل نے خبر دی کہ اسرائیل ریاستہائے متحدہ امریکا کو پیچھے چھوڑ کر یہودی آبادی کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔، مردم شماری کے ماہر اور جامعہ عبرانی یروشلم کے پروفیسر سرجیو ڈالا پیگولا نے اس خبرپر اعتراض جتایا اور کہا کہ امریکا اور اسرائیل کے درمایان یہودی آبادی کے اس فاصلے کو ختم ہونے میں ابھی مزید 3 برس لگیں گے، ۔ [17] جنوری 2006ء میں ڈالا پرگولا نے کہا کہ اب اسرائیل میں امریکا سے زیادہ یہود ہیں۔ انھوں نے مزید کیا کہ تل ابیب میٹروپولیٹن نے نیو یارک میٹروپولیٹن علاقہ کو کسی ایک میٹروپہلیٹن علاقہ میں سب سے زیادہ یہود ہوئے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔، [18] حالانکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے یہودی آبادیکے معاملے میں امریکا کو 2008ء میں پیچھے چھوڑا ہے۔ [19] یہود سے باہر شادی اور اختلاط کی وجہ سے یہود کی بیرون اسرائیل آبادی میں زبردست کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اور ساتھ ہی اسرائیل کی یہودی آبادی اسی رفتار سے ترقی ہو رہی ہے۔ اسی سے یہ تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ اگلے 20 برسوں میں دنیا کے زیادہ تر یہود اسرائیل میں آباد ہو جائیں گے۔ [20] مارچ 2012ء کو مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل نے وائی نیٹ عدم موجودگی میں یہ پہشن گوئی کی کہ 2019ء میں اسرائیل میں 6,940,000 ہوں گے۔ جن میں 5.84 ملین غیر اسرائیلی ہوں گے، 2009ء میں یہ تعداد 5.27 ملین تھی۔ اور 2050ء تک یہ تعداد 6.09 سے 9.95 تک پہنچنے کی امید ہے۔ یعنی 2011ء کی آبادی میں 16%–89% کا اضافہ ہونے امید ہے۔ ادارہ نے یہ بھی بتایا کہ 2019ء میں راسخ العقیدہ یہود 1.1 ملین ہوں گے۔ 2009ء میں یہ تعداد 750,000 تھی۔ اور 2059ء تک حریدی یہود کی تعداد 2.73 ملین سے 5.84 ملین ہونے کی امید ہے۔ یعنی 264%–686% کا اضافہ ہوگا۔ اس طرح اسرائیل میں 2059ء تک یہود کی کل آبادی 8.82 ملین سے 15.790 ملین ہونے کی امید ہے۔ [21] جنوری 2014ء میں ماہر مردم شماری جوزف شیمی نے بتایا کہ 2025ء تک اسرائیل میں یہود کی آبادی 9.84 ملین کے آس پاس ہوگی اور 2035ء میں یہی ان کی آبادی 11.40 ملین ہو جائے گی۔ [22]
پہلی صدی تخمینہ | 2,500 000[23] |
ساتویں صدی تخمینہ | 300,000–400,000[24] |
1800 تخمینہ | 6,700[25][26] |
1880 تخمینہ | 24,000[25][26] |
1915 تخمینہ | 87,500[25][26] |
1931 تخمینہ | 174,000[25][26] |
1936 تخمینہ | > 400,000[25][26] |
1947 تخمینہ | 630,000[25][26] |
1949 مردم شماری | 1,013,900[27] |
1953 مردم شماری | 1,483,600[28] |
1957 مردم شماری | 1,762,700[29] |
1962 مردم شماری | 2,068,900[29] |
1967 مردم شماری | 2,383,600[27] |
1973 مردم شماری | 2,845,000[27] |
1983 مردم شماری | 3,412,500[27] |
1990 مردم شماری | 3,946,700[27] |
1995 مردم شماری | 4,522,300[27] |
2000 مردم شماری | 4,955,400[27] |
2006 مردم شماری | 5,393,400[27] |
2009 مردم شماری | 5,665,100 |
2010 مردم شماری | 5,802,000[30] |
2017 مردم شماری | 6,556,000[2][3] |
یہودی آبادی کے عظیم مراکز
[ترمیم]درجہ | ضلع | کل یہودی آبادی (2008) |
% یہودی (2008) |
---|---|---|---|
1 | ضلع وسطی (اسرائیل) | 1,592,000 | 92% |
2 | ضلع تل ابیب | 1,210,000 | 99% |
3 | جنوبی ضلع (اسرائیل) | 860,000 | 86% |
4 | ضلع حیفا | 652,000 | 76% |
5 | ضلع یروشلم | 621,000 | 69% |
6 | شمالی ضلع (اسرائیل) | 562,000 | 46% |
7 | یہودا و سامرا | 304,569 | ≈15–20% |
درجہ | شہر | آبادی (2009) |
% یہودی (2008) |
ضلع |
---|---|---|---|---|
1 | یروشلم | 773,800 | 63.4% | ضلع یروشلم |
2 | تل ابیب | 393,900 | 91.4% | ضلع تل ابیب |
3 | حیفا | 265,600 | 80.9% | ضلع حیفا |
4 | ریشون لضیون | 227,600 | 93.9% | ضلع وسطی (اسرائیل) |
5 | اشدود | 211,300 | 91.0% | جنوبی ضلع (اسرائیل) |
6 | فتح تکو | 197,800 | 92.5% | ضلع وسطی (اسرائیل) |
7 | نتانیا | 181,200 | 93.4% | ضلع وسطی (اسرائیل) |
8 | بیر سبع | 187,900 | 87.9% | جنوبی ضلع (اسرائیل) |
9 | حولون | 172,400 | 92.8% | ضلع تل ابیب |
10 | بنی براک | 155,600 | 98.6% | ضلع تل ابیب |
11 | رمت غان | 135,300 | 95.2% | ضلع تل ابیب |
12 | بات یام | 128,900 | 84.9% | ضلع تل ابیب |
13 | رحوووت | 109,500 | 94.8% | ضلع وسطی (اسرائیل) |
14 | عسقلان | 111,700 | 88.4% | جنوبی ضلع (اسرائیل) |
15 | ہرتزیلیا | 85,300 | 96.3% | ضلع تل ابیب |
شماریات کے استعمال کے لیے اسرائیل میں 3 اہم میٹروپولیٹن علاقہ جات ہیں۔ اسرائیل میں یہودی آبادی کی اکثریت ملک کے وسطی علاقہ میں رہتی ہے، جن میں تل ابیب میٹرو پولیٹن علاقہ شامل ہے۔ تل ابیب میٹرو پولیٹن علاقہ فی الحال دنیا کا سب سے بڑا یہودی آبادی کا مرکز ہے۔
درجہ | میٹروپولیٹن علاقہ | کل آبادی (2009) |
یہودی آبادی (2009) |
% یہودی (2009) |
---|---|---|---|---|
1 | تل ابیب میٹرو پولیٹن علاقہ | 3,206,400 | 3,043,500 | 94.9% |
2 | [[حیفا میٹرو پولیٹن علاقہ]] | 1,021,000 | 719,500 | 70.5% |
3 | [[بئر السبع میٹرو پولیٹن علاقہ]] | 559,700 | 356,000 | 63.6% |
یہ بات مدلل ہے کہ یروشلم، اسرائیل کی حالیہ اعلان دار الحکومت، دنیا میں یہودی آبادی کا سب سے بڑا سہر ہے۔ اس کی آبادی 732,100 سے زیادہ ہے۔ اور شہری علاقوں میں 1,000,000 آبادی ہے ( ان میں مشوری یروشلم میں رہ رہے 280,000 فلسطینی ہیں جو اسرائیل کے باشندے نہیں ہیں۔) اس طرح یہوشلم میں اسرائیلی یہود کی کل آبادی 700,000 ہے۔ [32] دوسرا شہر ناصرہ ہے جس میں 65,500 یہود آباد ہیں۔ شہری علاقوں میں 200,000 لوگ آباد ہیں جن میں 110,000 سے زیادہ اسرائیلی یہود آباد ہیں۔ [33]
اسرائیل میں یہودی تنظیمیں
[ترمیم]ریاست اسرائیل کے اعلان کے وقت ریاست میں زیادہ تر اشکنازی یہودآباد تھے۔ جیسے ریاست کے قیام کا اعلان ہوا، یورپ اور امریکا سے یہودی مہاجرین اور پناہ گزینوں کا اسرائیل میں داخلہ شراع ہو گیا۔ یہود جوق در جوق اسرائیل میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ عراب اور مسلم ممالک کے راسخ العقیدہ یہود بھی اسرائیل کا رخ کرنے لگے۔ 1950ء اور 1960ء کے دوران میں ہجرات کرنے والے زیادہ تر وہ یہود تھے جو مرگ انبوہ میں زندہ بچ گئے تھے۔ ان کے علاوہ سفاردی یہودی اور مزراحی یہودی بھی تھے جو زیادہ تر مغربی یہود، الجزائری یہود، تونسی یہود، یمنی یہود تھے۔ لبنان، سوریہ، لیبیا، مصر، بھارت، ترکی اور افغانستان سے بھی یہود کے طھوٹے چھوٹے گروہ نے اسرائیل کی طرف ہجرت کی۔
اسرائیلی یہود میں 75 فیصد اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اسرائیلیوں کی دوسری یا تیسری نسل میں سے ہیں۔ اور باقی مدوسرے ملکوں کے مہاجرین ہیں۔ ان میں 19 فیصد یورپ، امریکن اور اوقیانوسیہ سے ہیں۔ 9 فیصد ایشیا اور افریقا سے ہیں جو زیادہ تر عالم اسلام کے ہیں۔ اسرائیلی حکومت بیرون اسرائیل رہ رہے یہود کو شمار نہیں کرتی ہے۔
بیرون اسرائیل یہودیوں کی جائے پیدائش
[ترمیم]سی بی ایس نے بیرون اسرائیل رہ رہے اسرائیلی یہودیوں کے آبائی وطنوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان میں غیر ہلاخاہ اور وہ یہودی مہاجرین جو واپسی کا قانون کے تحت آئے تھے، شامل ہیں۔ ڈاٹا بمطابق سنہ 2010ء[34]
اصل وطن | بیرون اسرائیل میں پیدا ہوئے | اسرائیل میں پیدا ہوئے | کل | % |
---|---|---|---|---|
کل | 1,610,900 | 4,124,400 | 5,753,300 | 100.0% |
ایشیا | 201,000 | 494,200 | 695,200 | 12.0% |
ترکی | 25,700 | 52,500 | 78,100 | 1.4% |
عراق | 62,600 | 173,300 | 235,800 | 4.1% |
یمن | 28,400 | 111,100 | 139,500 | 2.4% |
ایرانی یہودی/افغانستان | 49,300 | 92,300 | 141,600 | 2.5% |
بھارت میں یہودیت/پاکستان میں یہودیت | 17,600 | 29,000 | 46,600 | 0.8% |
سوری یہودی/لبنان | 10,700 | 25,000 | 35,700 | 0.6% |
دیگر | 6,700 | 11,300 | 18,000 | 0.3% |
افریقا | 315,800 | 572,100 | 887,900 | 15.4% |
المغرب | 153,600 | 339,600 | 493,200 | 8.6% |
الجزائر/تونس | 43,200 | 91,700 | 134,900 | 2.3% |
لیبیا | 15,800 | 53,500 | 69,400 | 1.2% |
مصر | 18,500 | 39,000 | 57,500 | 1.0% |
ایتھیوپیا | 81,600 | 38,600 | 110,100 | 1.9% |
دیگر | 13,100 | 9,700 | 22,800 | 0.4% |
[اوقیانوسیہ/ امریکن/یورپ | 1,094,100 | 829,700 | 1,923,800 | 33.4% |
سوویت اتحاد | 651,400 | 241,000 | 892,400 | 15.5% |
پولینڈ | 51,300 | 151,000 | 202,300 | 3.5% |
رومانیا | 88,600 | 125,900 | 214,400 | 3.7% |
بلگاریہ/یونان | 16,400 | 32,600 | 49,000 | 0.9% |
جرمنی/آسٹریا | 24,500 | 50,600 | 75,200 | 1.3% |
زیچ ریپبلک/سولواکیہ/ہنگری | 20,000 | 45,000 | 64,900 | 1.1% |
فرانس | 41,100 | 26,900 | 68,000 | 1.2% |
مملکت متحدہ | 21,000 | 19,900 | 40,800 | 0.7% |
دیگر، یورپ | 27,000 | 29,900 | 56,900 | 1.0% |
شمالی امریکا/اوقیانوسیہ | 90,500 | 63,900 | 154,400 | 2.7% |
ارجنٹائن | 35,500 | 26,100 | 61,600 | 1.1% |
لاطینی امریکا/دیگر | 26,900 | 17,000 | 43,900 | 0.8% |
اسرائیل | — | 2,246,300 | 2,246,300 | 39.0% |
اسرائیل میں تقریباً 300,000 ایسے یہود انسل شہری ہیں جن کو ہلاخاہ کے راسخ العقیدت کے معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ ان میں تقریباً 10 فیصد مسیحی اور 89 فیصد آیا یہودی اور لامذہبی ہیں۔ 2005ء میں آئی ڈی ایف کے تبدیلی مذہب پروگرام کے تحت 640 لوگوں کی گھر واپسی ہوئی اور 2006ء میں 450 یہودیوں کی۔ 2002ء سے 1 اکتوبر 2007ء تک 2,213 فوجی جوان مذہب بدل چکے تھے۔ [35] In 2003, 437 Christians converted to Judaism; in 2004, 884; and in 2005, 733.[36] حاکیہ دنوں میں ربانی کے صدر نے کئی ہزار لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا۔ ان کو سرکاری یہودی درجہ ملا۔ ان میں زیادہ تر سوویت اتحاد کے مہاجرین تھے۔ [37]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ My Promised Land، by Ari Shavit، (London 2014)
- ^ ا ب "Israel Boasts 8.8 Million on Eve of 2018, 74.6% Jewish"۔ Jewish Press۔ دسمبر 31, 2017۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ^ ا ب Amir Alon (دسمبر 31, 2017)۔ "Nearing nine million: Israel in numbers on eve of 2018"۔ Ynet News
- ↑ "Poll: Most Israelis see themselves as Jewish first, Israeli second – Israel Jewish Scene, Ynetnews"۔ Ynet.co.il۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2012
- ↑ Lucy S. Dawidowicz (1976)۔ The war against the Jews, 1933–1945۔ Bantam Books۔ صفحہ: 403۔ ISBN 978-0-553-20534-3۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ↑ "The birth of Israel"۔ BBC News۔ 27 اپریل 1998۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مئی 2010
- ^ ا ب Harris, J. (1998) The Israeli Declaration of Independence آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtr.lib.virginia.edu (Error: unknown archive URL) The Journal of the Society for Textual Reasoning، Vol. 7
- ↑ Charles D. Smith (2007)۔ Palestine and the Arab-Israeli Conflict: A History with Documents۔ Bedford/St. Martin's۔ صفحہ: 198۔ ISBN 978-0-312-43736-7۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ↑ General Progress Report and Supplementary Report of the United Nations Conciliation Commission for Palestine, Covering the period from 11 دسمبر 1949 to 23 اکتوبر 1950, GA A/1367/Rev.1 23 اکتوبر 1950.
- ↑ M. Amara، Abd Al-Rahman Mar'i (31 مئی 2002)۔ Language Education Policy: The Arab Minority in Israel۔ Springer۔ ISBN 978-1-4020-0585-5۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ↑ "Population, by Population Group" (PDF)۔ Monthly Bulletin of Statistics۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ 7 مارچ 2013۔ 3 دسمبر 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2013
- ↑ Government of Israel Central Bureau of Statistics۔ "Jews and others, by origin, continent of birth and period of immigration" (PDF)۔ 25 مارچ 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2006
- ↑ "JEWS AND OTHERS(1)، BY COUNTRY OF ORIGIN(2) AND AGE"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2014
- ↑ Gartner (2001)، pp. 400–401.
- ↑ Paul Morland (7 اپریل 2014)۔ "Israeli women do it by the numbers"۔ The Jewish Chronicle۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2014
- ↑ "Star-News – Google News Archive Search"۔ news.google.com
- ↑ Statistics bureau: Israeli Jews outnumber Jews in the U.S. Haaretz
- ↑ "Israel´s Jewish Population Surpasses United States"۔ Israel National News۔ 17 جنوری 2006۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2012
- ↑ Stuart E. Eizenstat (3 مئی 2012)۔ The Future of the Jews: How Global Forces are Impacting the Jewish People, Israel, and Its Relationship with the United States۔ Rowman & Littlefield Publishers۔ ISBN 978-1-4422-1629-7۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ↑ Bayme, Steven: Jewish Arguments and Counterarguments: Essays and Addresses (Page 385)
- ↑ "CBS predicts Arab-haredi majority in 2059 Haredim, Arabs will outnumber Jewish secular population in 47 years"۔ Ynet۔ 28 مارچ 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اپریل 2013
- ↑ "Israeli-Palestinian Population Growth and Its Impact on Peace"۔ PassBlue۔ 2 فروری 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2015
- ↑ http://archive.iussp.org/Brazil2001/s60/S64_02_dellapergola.pdf آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archive.iussp.org (Error: unknown archive URL) p:5
- ↑ Israel Cohen (1950)۔ Contemporary Jewry: A Survey of Social, Cultural, Economic, and Political Conditions۔ Methuen p. 310
- ^ ا ب پ ت ٹ ث "Arab–Israel Conflict." The Continuum Political Encyclopedia of the Middle East۔ Ed. Avraham Sela۔ New York: Continuum, 2002. pp. 58–121.
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Y. Gorny, 1987, 'Zionism and the Arabs, 1882–1948'، p. 5 (italics from original)
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Israeli Central Bureau of Statistics "Statistical Abstract of Israel, No. 55, 2004 آرکائیو شدہ 28 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین"، and "Statistical Abstract of Israel 2007: Population by district, sub-district and religion آرکائیو شدہ 28 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین" ICBS website
- ↑ Alexander Berler (1 جنوری 1970)۔ New Towns in Israel۔ Transaction Publishers۔ صفحہ: 5–۔ ISBN 978-1-4128-2969-4۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2018
- ^ ا ب "Population, by Population Group" (PDF)۔ Monthly Bulletin of Statistics۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ اگست 2013۔ 31 اکتوبر 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2013
- ↑ Ruth Eglash (29 دسمبر 2011)۔ "On eve of 2012, Israel's population surp.۔. JPost – National News"۔ Jpost.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2012
- ↑ "Localities, Population, and Density" (PDF)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2010
- ↑ "Jerusalem: From Town to Metropolis"۔ University of Southern Maine۔ 7 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2008
- ↑ "Initiated Development in the Nazareth Region"۔ 12 نومبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2008
- ↑ "Jews, by Country of Origin and Age"۔ Statistical Abstract of Israel (بزبان انگریزی and العبرية)۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل۔ 26 ستمبر 2011۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2012
- ↑ "Rabbis Blamed for Fewer 'IDF Converts'"۔ 26 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2017
- ↑ Nurit Palter۔ "2006: More Jews converting to Islam"۔ Ynet۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2014
- ↑ "Thousands of conversions questioned"۔ Ynet۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2014