مندرجات کا رخ کریں

احنف بن قیس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احنف بن قیس
معلومات شخصیت
وفات سنہ 687ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

احنف بن قیس اپنے عہد کے بڑے عاقل، مدبر، حکیم اور حلیم تھے۔آپ نے 72ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔

نام ونسب

[ترمیم]

ضحاک نام، ابو بحر کنیت، عرفی نام احنف ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ احنف کے پیروں میں خلقی کجی تھی ،عربی میں اس کو حنف کہتے ہیں، اس لیے وہ احنف مشہور ہو گئے نسب نامہ یہ ہے احنف ابن قیس بن معاویہ بن حصین بن حفص بن عباد ہ بن نزال بن مرہ بن عبید بن مقاعس بن عمرو بن کعب ابن سعد بن زید مناۃ بن تمیم کے سرداروں میں تھے۔

عہد رسالت

[ترمیم]

احنف عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مشرف باسلام ہوئے اور ان کا قبیلہ انہی کی تحریک پر اسلام لایا۔ [2] ابن سعد نے ان کے حالات تابعین ہی کے زمرہ میں لکھے ہیں۔ جس روایت سے ان کے اسلام کا نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو قبیلہ بنی سعد (احنف کا قبیلہ) میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا، انھوں نے جاکر اسلام پیش کیا احنف بھی موجود تھے،انھوں نے اسلامی تعلیمات سن کر کہا کہ یہ شخص بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور اچھی باتیں سناتا ہے، مبلغ صحابی نے جاکر یہ واقعہ آنحضرتﷺ سے بیان کیا آپ نے سن کر دعا فرمائی کہ خدایا احنف کی مغفرت فرما۔[3]

عہد فاروقی

[ترمیم]

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ کو قبیلہ بنی تمیم کے ساتھ سوظن تھا، اس لیے آپ اکثر اس کی مذمت کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ احنف کی موجودگی میں بنی تمیم کا کچھ تذکرہ آیا، آپ نے حسب معمول اس کی مذمت کی، احنف نے کہا آپ نے بلا استثنا پورے قبیلہ بنی تمیم کی برائی کی؛حالانکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں، ان میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہیں، حضرت عمرؓ نے سچی بات سن کر فرمایا تم نے سچ کہا اور ذکر خیر سے گذشتہ مذمت کی تلافی فرمائی، احنف کے بعد اسی قبیلہ کے ایک اور آدمی حتات نے کچھ کہنا چاہا، مگر حضرت عمرؓ نے روک دیا کہ تم بیٹھ جاؤ ،تمھاری جانب سے تمھارے سردار فرض ادا کر چکے۔

حضرت عمرؓ کی صحبت

[ترمیم]

اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احنف کی اصولی بات کی وجہ سے اس کا اعتراف کر لیا تھا، لیکن ان کے قبیلہ کے ساتھ ان کو سؤظن تھا، اس لیے بہ تقاضائے احتیاط احنف کی سیرت کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کو ایک سال تک اپنے ساتھ مدینہ میں رکھا اور تجربہ کے بعد ان سے کہا کہ میں نے ایک سال تک تمھارا تجربہ کیا، مجھ کو تم میں بھلائی کے سوا اور کوئی قابل اعتراض شے نظر نہ آئی تمھارا ظاہر اچھا ہے ،امید ہے کہ باطن بھی اچھا ہوگا، میں نے یہ اس لیے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو بتایا تھا کہ اس امت کی ہلاکت باخبر منافقین کے ہاتھوں ہوگی۔

ابوموسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو احنف کے بارہ میں حضرت عمرؓ کی ہدایت

[ترمیم]

اس تجربہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب ان پر کامل اعتماد ہو گیا تو انھیں ان کے وطن بصرہ واپس کر دیا اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ والی بصرہ کو ہدایت کردی کہ ان کو اپنے ساتھ رکھنا، ان سے مشورہ لینا اوران کے مشوروں اور ہدایتوں پر عمل کرنا [4]احنف اہل بصرہ کے سردار تھے،حضرت عمرؓ کے اس حکم کے بعد سے احنف کے مراتب روز بروز بلند ہونے لگے۔ [5]

فارس کی مہم میں شرکت

[ترمیم]

اس وقت ایران پر فوج کشی ہو چکی تھی، بصرہ واپس جانے کے بعد احنف اس میں شریک ہوئے؛ چنانچہ 17ھ میں فارس کی مہم میں نظر آتے ہیں۔ [6]

اہل بصرہ کی نمائندگی

[ترمیم]

احنف بڑے عاقل و مدبر تھے،اس لیے قومی و ملکی مہمات میں ان کا نام سرفہرست ہوتا تھا اور اکثر قوم کی نمائندگی کی خدمت اُن کے سپرد ہوتی تھی؛چنانچہ اسی زمانہ میں وہ بصرہ کے وفد میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ نے وفد سے اہل بصرہ کی شکایتیں اور ضرورتیں پوچھیں احنف نے جو ضروریات تھیں وہ پیش کیں، حضرت عمرؓ نے اُن کی تقریر بہت پسند کی اور خاندانِ کسری کی بعض مفتوحہ جاگیریں انھیں عطا کیں اور والی بصرہ کو لکھ بھیجا کہ وہ انتظامی امور میں احنف سے صلاح و مشورہ کیا کریں اور ان پر عمل کیا کریں [7] پھرا ہواز کی فتح کے بعد مشہور ایرانی افسر ہرمز ان کو جس نے خوزستان کی مہم میں سپر ڈال دی تھی، لے کر مدینہ آئے۔

ایران پر عام فوج کشی کا مشورہ

[ترمیم]

اس وقت عراق فتح ہو چکا تھا، لیکن ایران پر عام فوج کشی نہ ہوئی تھی اور مفتوحہ علاقے بار بار باغی ہوجاتے تھے، اسی زمانہ میں مجاہدین کا وفد مدینہ آیا ، حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ ایرانی بار بار باغی کیوں ہوجاتے ہیں، معلوم ہوتا ہے مسلمان انھیں ستاتے ہیں مسلمانوں نے اس کی تردید کی، لیکن کوئی حضرت عمرؓ کے سوال کا تشفی بخش جواب نہ دے سکا، احنف کا دماغ نہایت نکتہ رس تھا، یہ اصل تہ تک پہنچ گئے،انھوں نے کہا،اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر المومنین نے مسلمانوں کو ایران کے اندرون ملک فوج کشی سے روک دیا ہے اور سلطنت کا وارث تاج وتخت ملک میں موجود ہے،جب تک وہ باقی رہے گا ایرانی اس کے سہارے پر برابر بغاوت کرتے رہیں گے؛ کیونکہ ایک ملک میں دو حکومتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں، ایران کا بادشاہ ایرانیوں کو ابھارتا رہتا ہے،اس لیے جب تک ہم لوگ ایران کے اندر فوج کشی کرکے اس کو ختم نہ کر دیں گے اس وقت تک ایرانیوں کی یہی روش رہے گی، جب وہ لوگ اپنی حکومت سے بالکل مایوس ہو جائیں گے اس وقت خاموش ہوں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی تقریر کو سن کر فرمایا تم سچ کہتے ہو اوران کے مشورہ کے مطابق ایران پر عام فوج کشی کے انتظامات شروع کر دیے اور ہر ہر صوبے پر علاحدہ علاحدہ فوجیں روانہ کیں۔ [8]

یزدگرد کا استیصال

[ترمیم]

چونکہ یزدگرد کے استیصال کا مشورہ احنف ہی نے دیا تھا اور وہ اپنے دل و دماغ کے لحاظ سے اس مہم کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے، اس لیے خراسان کی مہم جہاں یزد گرد پناہ گزیں تھا، حضرت عمرؓ نے انہی کے سپرد کی،یہ 22ھ میں خراسان کی طرف بڑھے اور طبسین ہوکر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کرکے مرد شاہجہاں کا جہاں یزد گرد مقیم تھا رخ کیا، وہ ان کی پیش قدمی کی خبر سن کر مروالرود چلا گیا یہاں پہنچ کر خاقان چین اور دوسرے سرحدی حکمرانوں کو مدد کے لیے خطوط لکھے، یزد گرد کے مروالروز جانے کے بعد احنف مرد شاہجہاں میں حارثہ بن نعمان باہلی کو چھوڑ کر مرد کی طرف بڑھے،ان کا رخ دیکھ کر یزد گردیہاں سے بھی بھاگا اور بلخ پہنچا، اس دوران میں کوفہ سے تازہ دم امداد ی فوجیں آگئیں،احنف نے انھیں لے کر بلخ پر حملہ کر دیا ،یزد گرد شکست کھا کر دریا پار خاقان کے حدود حکومت میں چلا گیا، اس کے بعد احنف نے خراسان کے تمام علاقوں میں فوجیں پھیلادیں خراسانی نہیں نہ روک سکے اور نیشاپور سے طخارستان تک کا پورا علاقہ صلحاً فتح ہو گیا اور احنف نے مروالروذ واپس ہوکر حضرت عمرؓ کو فتح کا مژدہ لکھا، آپ فتوحات کا دائرہ ایران سے آگے نہیں بڑھانا چاہتے تھے،اس لیے دریا پار پیش قدمی کرنے سے روک دیا۔

یزد گرد کے حدود چین میں داخل ہونے کے بعد خاقان چین نے اس کی بڑی پزیرائی کی اور ایک لشکر جرار کے ساتھ اس کی مد د کے لیے خراسان پہنچا اور سیدھا بلخ کی طرف بڑھا بلخ کی اسلامی فوجیں احنف کے ساتھ مروالروز واپس جاچکی تھیں اس لیے یزد گرد اور خاقان دونوں بلخ ہوتے ہوئے مرو کی طرف بڑھے، یزد گرد مرو شاہجہاں جہاں اس کا خزانہ تھا،چلاگیا احنف اور یزدگرد کا مقابلہ ہوا،احنف نے پہاڑ کے دامن میں صف آرائی کی فریقین میں عرصے تک صبح شام معمولی جھڑپ ہوتی رہی، ایک دن احنف خود میدان میں نکلے،خاقان کی فوج سے ایک بہادر ترک طبل اور دمامہ بجاتا ہوا ،مقابل میں آیا، احنف نے اس کا کام تمام کر دیا ،اس کے بعد دو اور بہادر یکے بعد دیگرے مقابلہ میں آئے، مگر دونوں احنف کی تلوار کا لقمہ بنے،اس کے بعد ترکوں کا پورا لشکر آگے بڑھا،خاقان کی نظر لاشوں پر پڑی اس نے فال بدلی ،یزد گرد کی حمایت میں اس کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا اور مسلمانوں کو زیر کرنا بھی آسان نہ تھا، اس لیے اس نے کہا ہم کو یہاں آئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں،ہمارے بہت سے نامور بہادر قتل ہو چکے ہیں،ہم کو ان لوگوں سے لڑنے میں کوئی فائدہ نہیں نظر آتا اور فوج کو کوچ کا حکم دے دیا۔

اس وقت یزد گرد مرو شاہجہاں میں تھا،اس کو خاقان کی واپسی کی خبر ملی تو اس کی ہمت چھوٹ گئی اور اس نے خزانہ لے کر ترکستان نکل جانا چاہا ،ایرانیوں نے اس کو اس ارادہ سے روکا اور کہا کہ ترکوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے اورنہ ان کے عہدو پیمان کا ہمیں کوئی تجربہ ہے مسلمان بہرحال صاحب مذہب اور عہد کے پابند ہیں،اس لیے اگر آپ کو ملک ہی چھوڑنا ہے تو مسلمانوں سے صلح کر لیجئے؛ لیکن یزدگرد نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ،ایرانیوں نے جب دیکھا کہ ان کے ملک کی دولت دوسرے ملک میں نکلی جارہی ہے،تو لڑکر یزدگرد سے کل خزانہ چھین لیا اور وہ شکست کھا کر ترکستان چلا گیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک خاقان کے پاس مقیم رہا۔

یزدگرد کے ترکستان چلے جانے کے بعد ایرانیوں کا آخری سہارا بھی جاتا رہا اور انھوں نے مایوس ہوکر احنف سے صلح کرلی اور یزد گرد کا کل خزانہ ان کے حوالہ کر دیا، احنف نے اُن کے ساتھ ایسا شریفانہ برتاؤ کیا کہ انھیں اس کا افسوس ہوا کہ وہ اب تک مسلمانوں کی حکومت سے کیوں محروم رہے۔

ایک پر اثر تقریب

[ترمیم]

اس مصالحت کے بعد احنف نے حضرت عمرؓ کو فتح کی اطلاع بھجوائی اور مسلمانوں کو جمع کرکے ایک پر اثر تقریر کی، جو اپنی اثر پذیری کے اعتبار سے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس بصیرت ہو سکتی ہے، تقریر یہ تھی۔ مسلمانو! آج مجوسیوں کی حکومت برباد ہو گئی اور اب ان کے قبضہ میں ان کے ملک کا ایک چپہ بھی باقی نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکیں،خدانے اب تم کو ان کی زمین، ان کے ملک اور ان کے اہل ملک کا وارث بنایا ہے تاکہ تمھارا امتحان لے،اگر تم بدل گئے تو خدا بھی تمھاری جگہ دوسری قوم کو بدل دے گا، مجھے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں سے ان کی بربادی کا خوف ہے۔ [9]

عہد عثمانی

[ترمیم]

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب ایران میں بغاوت ہوئی اور خراسان مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا، اس وقت احنف ہی نے فوج کشی کرکے دوبارہ اس پر قبضہ کیا۔ [10]

خانہ جنگی سے اجتناب اورحضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعت

[ترمیم]

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت احنف نے اپنی تلوار میان میں کر لی؛ چنانچہ جب حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ میں اختلافات شروع ہوئے، اس وقت احنف نے جو مکہ میں تھے حضرت عائشہؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ سے مل کر اصل حقیقت کا اندازہ کر کے حضرت علیؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی [11] لیکن جنگ میں کسی جانب سے حصہ نہ لیا[12] حضرت عائشہؓ نے بھی انھیں اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی لیکن اس وقت وہ بیعت کر چکے تھے۔

جنگ صفین میں شرکت

[ترمیم]

البتہ جب حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ میں جنگ چھڑی ،اس وقت ان کی حق شناس تلوار میان میں نہ رہ سکی اور انھوں نے حضرت علیؓ کی حمایت میں نہایت پرجوش حصہ لیا اور اہل بصرہ کو ان کی امداد واعانت پر آمادہ کیا۔ [13] جنگ صفین کے التواء پر جب تحکیم کا مسئلہ پیش ہوا اورحضرت علیؓ کی جانب سے ابو موسیٰ اشعریؒ کا نام لیا گیا، اس وقت احنف نے سخت مخالفت کی اور کہا آپ کو عرب کے مدبر اعظم سے سابقہ پڑا ہے ،ابو موسیٰ کا مجھ کو خوب تجربہ ہے، وہ اس اہم کام کے اہل نہیں ہیں اس کے لیے نہایت چالاک اور عاقل شخص کی ضرورت ہے اگر ہو سکے تو آپ مجھے حکم بنائیے اور اگر اس کے لیے صحابی ہونا ضروری ہے تو آپ کسی اور صحابی کو منتخب کیجئے اور مجھ کو اس کا مشیر بنائیے لیکن عراقی قوم کا فیصلہ ابو موسیٰؓ کے حق میں تھا، اس لیے حضرت علیؓ احنف کے خیر خواہانہ اور زرین مشورہ پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔ [14] جنگِ صفین کے بعد خوارج پر فوج کشی میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اور کئی ہزار اہل بصرہ کو آپ کی مدد کے لیے لے گئے۔ [15]

امیر معاویہؓ کی اطاعت اور آزادی رائے

[ترمیم]

حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کی خلافت تسلیم کرلی، لیکن اس وقت بھی انھوں نے آزادی اور حق گوئی کا جوہر قائم رکھا اور امیر معاویہؓ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ان کے نزدیک ان کا جو فعل درست نہیں ہوتا تھا، اس پر نہایت جرأت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کرتے تھے، امیر معاویہؓ نے جب یزید کی ولی عہدی کے لیے تمام ممالک محروسہ سے وفود طلب کیے،تو احنف بھی بصرہ کے وفد کے ساتھ آئے ،امیر معاویہؓ نے ان سے بھی یزید کی ولی عہدی کے بارہ میں پوچھا انھوں نے کہا امیر المومنین آپ یزید کے شبانہ یوم کے مشاغل، اس کے ظاہر اور مخفی حالات،اس کے آنے جانے کے مقامات سے اچھی طرح واقف ہیں، اگر اس واقفیت کے بعد بھی آپ اس کو خدا اور امت محمدی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں تو اس میں مشورہ کی ضرورت نہیں اور اگر بہتر نہیں سمجھتے ،تو ایسی حالت میں کہ آپ کو عنقریب آخرت کا سفر پیش آنے والا ہے یزید کو دنیا کا توشہ نہ دیجئے ،ورنہ یوں ہمارا فرض ہے کہ آپ جو کچھ فرمائیں ہم اُس کو بجا لائیں۔ [16]

امیر معاویہؓ پر ان کا اثر

[ترمیم]

لیکن ان کی حق پرستی اورصاف گوئی کے باوجود امیر معاویہؓ ان کی بڑی قدر ومنزلت کرتے تھے اور بڑے بڑے عمال کو ان کے اشارہ پر معزول کر دیتے تھے۔ عبید اللہ بن زیاد امیر معاویہؓ کے نہایت معتمد علیہ اور ان عمال میں تھا۔ جنھوں نے اموی حکومت کی بنیاد مستحکم کی تھی، اس کا طرز عمل احنف کے ساتھ پسندیدہ نہ تھا۔59ھ میں عبید اللہ چند عمائد کوفہ کے ساتھ جس میں احنف بھی تھے، امیر معاویہؓ کے پاس شام آیا، امیر معاویہؓ حسب معمول احنف کے ساتھ بڑے تپاک سے پیش آئے اور انھیں اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا دیا،عمائد بصرہ نے عبید اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امیر معاویہ کے سامنے اُس کی بڑی تعریفیں کیں، احنف کی رائے ان سب کے خلاف تھی،اس لیے وہ خاموش رہے، امیر معاویہؓ نے پوچھا ابو بحر تم کیوں نہیں بولتے، انھوں نے جواب دیا، اگر میں بولوں گا تو قوم کی مخالفت ہوگی، ان کا خیال سن کر امیر معاویہ نے اسی وقت عبید اللہ کو معزول کر دیا اور اہل بصرہ سے کہا تم لوگ جس والی کو پسند کرتے ہو اس کو پیش کرو، ان لوگوں نے امیر معاویہؓ کی خوشامد میں اموی خاندان اور شامیوں میں سے انتخاب کیا،احنف اس وقت بھی خاموش رہے اورکسی کو پیش نہیں کیا امیر معاویہؓ نے پیش کرنے والوں سے پوچھا تم نے کسے منتخب کیا؛ چونکہ ان میں سے ہر شخص کا انتخاب جدا گانہ تھا، اس لیے کسی ایک شخص پر اتفاق نہ ہو سکا احنف بالکل خاموش تھے ،امیر معاویہؓ نے ان سے کہا تم کیوں نہیں بولتے یہ منتخب کرنے والوں کا رنگ دیکھ چکے تھے،اس لیے انھوں نے کہا اگر آپ کو اپنے خاندان والوں میں سے کسی کو والی بنانا ہے،تو ایسی صورت میں ہم عبید اللہ ہی کو ترجیح دیں گے اوراگر کسی تیسرے شخص کو بنانا ہو اس میں جو آپ کی رائے ہو، ان کا منشا سن کر معاویہ نے عبید اللہ ہی کو برقرار رکھا اور اس کو احنف کے نظر انداز کرنے پر ملامت اور آیندہ ان کے ساتھ حسن عمل کی تاکید کی۔ [17]

یزید کی خلافت

[ترمیم]

امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد احنف نے یزید کی خلافت تسلیم کرلی ،حضرت امام حسینؓ جب یزید کے مقابلہ کے لیے اُٹھے تو احنف کو بھی امداد کے لیے خط لکھا [18] لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا اور یزید کی بیعت پر قائم رہے۔ ابن زبیرؓ کی حمایت: یزید کی موت کے بعد جب اموی حکومت میں انقلاب برپا ہوا اور عراق سے اموی حکومت اُٹھ گئی ،اس وقت بصریوں کی رہنمائی کرتے رہے، اس سلسلہ میں ان کے قبیلہ بنی تمیم اور بعض دوسرے قبائل میں کچھ ہنگامہ آرائیاں ہوئیں، پھر جب عراق عبد اللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آگیا،اس وقت احنف ان کے ساتھ ہو گئے، ان کے زمانہ میں بھی احنف کا قدیم اعزاز و وقار قائم رہا، ابن زبیرؓ کے حکام ان سے صلاح و مشورہ کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے؛چنانچہ جب عراق میں خوارج کا زور بڑھا اور اس کا اثر بصرہ تک پہنچا اس وقت احنف ہی کی تحریک سے مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ خوارج کے مقابلہ پر مامور کیے گئے۔ [19]

عبد اللہ بن زبیرؓ کے دورخلافت میں مختار ثقفی نے جب عراق پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس وقت احنف نے ابن زبیرؓ کی حمایت میں مختار کے داعی مثنی کو عراق سے نکالا [20] لیکن رفتہ رفتہ جب عراق میں مختار کا اثر نفوذ کرنے لگا، اس وقت احنف نے ابن زبیر کے بھائی مصعب کے ساتھ مل کر مختار کے آدمیوں کا مقابلہ کیا۔ [21] اسی زمانہ میں عبد اللہ بن زبیرکے اصل حریف عبد الملک اموی نے احنف کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی؛لیکن گذشتہ تجربات کے بعد سے یہ امویوں کے سخت خلاف ہو گئے تھے اس لیے انھوں نے نہایت سخت جواب دیا کہ ابن زرقاء مجھے شامیوں کی دوستی کی دعوت دیتا ہے،خدا کی قسم میں چاہتا ہوں کہ میرے اوراس کے درمیان آگ کا پتھر حائل ہوجاتا کہ نہ اس کے آدمی ادھر آسکتے اورنہ میرے آدمی ادھر جا سکتے۔ [22]

وفات

[ترمیم]

عبد اللہ بن زبیرؓ کے بھائی مصعب والی کوفہ کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے،احنف ان سے ملنے کے لیے کوفہ گئے،یہیں انتقال ہو گیا [23] ابن عماد حنبلی کے بیان کے مطابق یہ 72ھ تھا ۔ [24]

فضل وکمال

[ترمیم]

علمی اعتبار سے احنف کوئی قابل ذکر شخصیت نہ رکھتے تھے، تاہم اکابر صحابہ کی صحبت اٹھائی تھی ، اس لیے علم سے تہی دامن نہ تھے، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، حضرت عبد اللہ بن سعدؓ اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ سے انھوں نے سماع حدیث کیا تھا اور اُن سے ان کی روایات موجود ہیں، خود ان سے استفادہ کرنے والوں میں حسن بصری ، ابوالعلا بن شخیر اور طلق بن حبیب وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [25]

عقل ودانش

[ترمیم]

ان کی فضیلت کا میدان مسند علم کی بجائے خارزار سیاست تھا، وہ اپنے عہد کے بڑے عاقل، مدبر، حکیم اور حلیم تھے [26] ان کے بارہ میں لوگوں کی رائے تھی کہ کسی قوم میں احنف بن قیس سے بہتر شریف نہیں دیکھا گیا [27] جب ان کی وفات ہوئی تو مصعب نے کہا آج سے حزم اور رائے کا خاتمہ ہو گیا۔ [28]

عبادت وریاضت

[ترمیم]

عام طور سے غیر معمولی عقل ودانش اور تدبر کے ساتھ زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت کا اجتماع کم ہوتا ہے، لیکن احنف جس درجہ کے مدبر تھے، اسی درجہ کا اُن میں زہد و تقویٰ تھا، اُن کی عبادت کا خاص وقت پر دۂ شب تھا، جب دنیا خواب شیریں کے مزے لیتی تھی،اس وقت وہ اپنے رب کے حضور میں اظہار عبودیت کرتے تھے،اسی وقت وہ اپنے اعمال کا جائزہ بھی لیتے تھے، ابو منصور کا بیان ہے کہ احنف کی نماز کا وقت عموماً رات کو ہوتا تھا، وہ چراغ جلا کر اس کی لو پر انگلی رکھتے اورنفس سے خطاب کرکے کہتے تجھ کو فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا۔ [29] ضعف پیری میں جب کہ قویٰ روزے کے متحمل نہ رہ گئے تھے،سعید بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ کسی نے احنف بن قیس سے کہا کہ اب آپ کے قویٰ بہت ضعیف ہو گئے ہیں،روزے آپ کو اور زیادہ کمزور کر دیں گے جواب دیا میں اس کو ایک بہت لمبے سفر کے لیے تیار کرتا ہوں۔ [30]

قرآن

[ترمیم]

قرآن کی تلاوت سے خاص شغف تھا، جب تنہائی ہوتی تو فوراً قرآن لے کر بیٹھ جاتے۔(ایضاً:67) ان عبادتوں پر بھی پورا اعتماد نہ تھا، خدا سے عرض کیا کرتے تھے خدایا اگر تو میری مغفرت کر دے تو یہ تیری رحمت ہے اور اگر سزا دے تو میں اس کا مستحق ہوں۔ [31]

طہارت میں غلو

[ترمیم]

طہارت میں اتنا غلو تھا کہ سخت سے سخت موسم میں بھی تیمم نہ کرتے تھے اور برف آلود پانی کی ٹھنڈک برداشت کرلیتے تھے، خراسان کی مہم کے زمانہ میں ایک شب کو نہانے کی حاجت ہو گئی، سردی کا موسم تھا، وہ بھی خراسان کی سردی، رات بھی ٹھنڈی تھی، احنف نے کسی خادم اور سپاہی تک کو نہ جگایا اور اسی وقت تن تنہا پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے راستہ میں کانٹے دار جھاڑیاں تھیں ان کو روندتے ہوئے آگے بڑھے کانٹوں کی خراش سے دونوں پاؤں لہو لہان ہو گئے بالآخر ایک برف کی تہ تک پہنچے اور اس کو توڑ کر برف آلود پانی سے غسل کیا۔ [32]

حق گوئی

[ترمیم]

نہایت حق گو اور حق پرست تھے، سلاطین اور امرا کے سامنے بھی ان کی زبان اظہار حق میں باک نہ کرتی تھی، یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ میں اظہار رائے کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے ایک اور کسی موقع پر اسی قبیل کا کوئی اختلافی مسئلہ پیش آیا تھا اور لوگ اپنی اپنی رائے ظاہر کرتے تھے لیکن احنف خاموش تھے، امیر معاویہؓ نے ان سے کہا ابو بحر تم بھی کچھ بولو ،انھوں نے کہا کیا بولوں، اگر جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کا خوف ہے اور اگر سچ بولتا ہوں تو تم لوگوں کا ڈر ہے۔ [33]

حلم

[ترمیم]

ضبط و تحمل ان کا خاص و صف تھا، علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ان کے مناقب بہ کثرت ہیں ان کا حلم ضرب المثل تھا[34] لیکن خود ہمیشہ انکسارا ً کہتے تھے کہ میں حقیقۃ حلیم نہیں ہوں؛بلکہ اپنے کو حلیم دکھانا چاہتا ہوں۔ [35]

بعض اصول

[ترمیم]

احنف کے بعض اصول ایسے تھے کہ وہ ہر شخص کے لیے لائق عمل ہیں فرماتے تھے کہ میں تین کاموں کے کرنے میں زیادہ جلدی کرتا ہوں، نماز پڑھنے میں جب اس کا وقت آجائے، جنازہ دفن کرنے میں اور لڑکی کی شادی کرنے میں جب اُس کی نسبت ہو جائے۔ [36]

اجمالی تبصرہ

[ترمیم]

ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ سادات تابعین میں تھے، ان کا حکم مثالاً پیش کیا جاتا تھا، حسن بصری فرماتے تھے کہ میں نے کسی قوم کے شریف کو احنف سے افضل نہیں پایا، انھوں نے متعدد خلفاء کا عہد پایا تھا، ان میں سے کسی خلیفہ نے ایک شخص سے ان کے اوصاف پوچھے اس نے کہا اگر آپ ایک وصف سننا چاہتے ہوں تو ایک بتاؤں، اگر دو چاہتے ہوں تو دو بتاؤں، اگر تین چاہتے ہوں تو تین بتاؤں، خلیفہ نے کہا دو بتاؤ، اس شخص نے کہا وہ بھلائی کرتے تھے اور بھلائی کو پسند کرتے تھے اور شر سے بچتے تھے اور اس سے بغض رکھتے تھے، خلیفہ نے کہا اچھا تین اوصاف بتاؤ اس شخص نے کہا کسی پر حسد نہیں کرتے تھے،کسی پر بیجا زیادتی اور ظلم نہیں کرتے تھے اور کسی کو اس کے حق سے نہیں روکتے تھے، خلیفہ نے کہا ایک وصف بیان کرو اس شخص نے کہا کہ وہ اپنے نفس کے سب سے بڑے حکمران تھے۔ [37]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مصنف: ذہبی — عنوان : تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام — اشاعت دوم — جلد: 5 — صفحہ: 353 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/FP3938
  2. شذرات الذہب :1/78
  3. ابن سعد،ق1:7/66
  4. (ابن سعد،ق1 ،:8/66)
  5. (اسد الغایہ:1/55)
  6. (ابن اثیر:2/440)
  7. (ایضاً:2/224،225)
  8. (ابن اثیر:2/439،440)
  9. (ابن اثیر :3/36،29 ملحضاً)
  10. (ایضاً:96،99)
  11. (ابن اثیر:2/195)
  12. (اخبار الطوال:157)
  13. (اخبار الطوال:176)
  14. (اخبار الطوال:206)
  15. (ابن اثیر:3/414)
  16. (ابن اثیر:3/421)
  17. (ابن اثیر:3/431)
  18. (ابن اثیر:3/431)
  19. (ایضاً:281)
  20. (ابن ثیر:4/203)
  21. (اخبار الطوال:313)
  22. (ابن سعد،ق1،ص68)
  23. (ابن سعد:ق 1 صفحہ 69)
  24. (شذرات الذہب :1/78)
  25. (تہذیب التہذیب :1/151)
  26. (استیعاب:1/55)
  27. (ابن سعد،جلد7ق1،ص:67)
  28. (تہذیب التہذیب :1/191)
  29. (ابن سعد،جلد7،ق اول،ص:67)
  30. (ایضاً:68)
  31. (ابن سعد،جلد7،ق1،ص:68)
  32. (ابن سعد،جلد7،ق 1ول:67)
  33. (ابن سعد،جلد7،ق ا،ص:67)
  34. (تہذیب التہذیب:1/91)
  35. (ابن سعد،ج،ق اول،ص:67)
  36. (ایضاً ،جلد7،ق اول:165)
  37. (شذرات الذہب :1/78)